انعام الحسن کاشمیریکالمز

حق خودارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق….انعام الحسن کاشمیری (خیال کشمیر)

یہی فیصلہ سب سے بڑی ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے بھی کیا تھا جس کی غالب اکثریت دونوں صوبوں یعنی جموں اور کشمیر میں مسلمان تھے

قانون تقسیم ہند 3جون 1947 ء کے اعلان کے مطابق برصغیر کی تمام ریاستوں کو اپنی اکثریتی آبادی کی بنیادی پر پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ چنانچہ ہندو اکثریتی ریاستوں نے بھارت اور مسلم اکثریتی ریاستوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جسے من و عن تسلیم کیا گیا۔ یہی فیصلہ سب سے بڑی ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے بھی کیا تھا جس کی غالب اکثریت دونوں صوبوں یعنی جموں اور کشمیر میں مسلمان تھے۔ انھوں نے واضح طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ باقاعدہ قرارداد منظور کی۔ یہی وہ حق خودارادیت تھا جسے قانون تقسیم ہند میں تسلیم کیا گیا اور بعد میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی متعدد مواقع پر اس کی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ خاص طور پر 5جنوری 1949ء کو جو قرارداد منظور کی گئی اس میں نہ صرف کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ اس ضمن میں ضروری رہنما خطوط بھی مہیا کیے گئے۔ تاہم اسے بھارت کی جانب سے مقبوضہ ریاست میں سے اپنی فوجیں نکالنے اور حالات کو پرامن ہونے سے مشروط کردیا گیا۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان نے منظور کی تھی جسے سلامتی کونسل نے تشکیل دیا تھا۔ اس کمیشن کے اراکین میں امریکہ، ارجنٹائنا، کولمبیا، بیلجیئم اور چیکو سلواکیہ نامی پانچ ممالک شامل تھے۔ اس قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ استصواب رائے کاانعقاد عمل میں لاتے ہوئے کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل پیش کیا گیا۔ اس قرارداد میں صریحاً ذکر ہے کہ کشمیری بھارت یا پاکستان، جس کے ساتھ چاہیں شامل ہوسکتے ہیں۔ یہ قرارداد ایک جانب کشمیریوں کو ان کا حق دیتی ہے، تو دوسری جانب بھارت اور پاکستان کیلئے بھی آسانیوں کی ایک راہ فراہم کرتی ہے کہ جس کی بدولت انہیں مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا۔ ساراانتظام ازخود اقوام متحدہ نے سنبھالناہے اور پھر اس کا نتیجہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق ہی نکلناہے۔ چنانچہ عملی طور پر اس پر بھارت یا پاکستان میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان نے اس قرارداد کو بخوشی تسلیم کیا۔ بھارت نے بھی اگرچہ اسے مان لیا لیکن ساتھ ہی یہ منطق بھی پیش کردی کہ جوں ہی کشمیر میں حالات بہتر ہونگے وہاں رائے شماری کے لئے انتظامات تشکیل دے دیے جائیں گے۔ یہ درحقیقت کوتلیہ چانکیائی سیاست کی ایک چال تھی۔ بھارت کو بخوبی معلوم تھا کہ رائے شماری کا نتیجہ اس کے خلاف نکلے گا چنانچہ اس کے بعد کشمیر کے حالات سدھرنے اور وہاں امن قائم ہونے کے بجائے صورت حال روز بروز بدتر ہوتی چلی گئی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اگرچہ 1947ء میں کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک کو عروج پر پہنچایالیکن جب سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد بھارت نے رائے شماری کا انعقاد امن وامان سے مشروط کردیا، تو کشمیریوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ انہیں یقین تھا کہ اقوام متحدہ کے زیراہتمام رائے شماری کا انعقاد لازمی طور پر عمل میں لایا جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک جانب سازش کے تحت کشمیر کے حالات خراب کردیے گئے، اور دوسری جانب اس نوعیت کے اقدامات بروئے کار لانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا جو آخر کار 5اگست 2019ء کے آخری اقدام پر منتج ہوئے جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے بھارتی صوبے کا درجہ دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم بھی کردیا گیا۔
5جنوری1949ء کی قرارداد بڑی مفصل اور مسئلہ کشمیر کا آسان ترین حل ہے۔ دنیا کی ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اکثریتی رائے سے اپنے مستقل کا تعین کرنے میں یکسر آزاد ہے۔ اقوام متحدہ کی تمام قراردادیں، مسلمہ عالمی قوانین اور پچھلی 1947ء سے لے کر آج تک دنیا کے بیشتر ممالک میں ان قوانین پر پوری طرح عمل درآمد بھی ایک بین ثبوت اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں ایک عملی دلیل ہے۔ مثلاً انڈونیشیا میں مشرقی تیمور، سوڈان اور برطانیہ میں سکاٹ لینڈ وغیرہ میں رائے شماری کا انعقاد اور اس کے نتیجے میں مضبوط ترین ملک کی تقسیم عمل میں لاتے ہوئے مظلوم قوموں کو ان کا حق دیا گیا لیکن کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ ایسے اصولوں سے پہلو تہی برتی جاتی ہے۔ پہلے بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے خائف ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد کے لئے عالمی برادری کے دباؤ کا شکار تھا لیکن اب وہ ببانگ دہل کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ قراردیتے ہوئے اس کوشش میں ہے کہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے مسئلہ کشمیر کو مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
کشمیر بھارت کی مشرقی ریاستوں اسام، ناگالینڈ، مے گھالیہ، تری پورہ، میزورام، منی پورہ، تامل ناڈو وغیرہ کی طرح نہیں کہ جنہوں نے قانون تقسیم ہند کے تحت بھارت میں شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن بعد میں اپنے حقوق کی تلفی پر علیحدگی کی تحریکیں شروع کردیں۔ کشمیریوں نے قانون تقسیم ہند کے فور ی بعد 19جولائی 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کرلی تھی۔ انہوں نے اپنے گھروں سمیت تمام سرکاری تنصیاب پر پاکستان کا قومی پرچم بھی آویزاں کردیا تھا بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بعض مراعات کے حصول کی شرط پر پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے مکتوب بھی ارسال کردیا تھاجسے منظور کرلیا گیا۔ پھر ازخود قانون تقسیم ہند واضح کرتا تھا کہ ریاستوں کا فیصلہ جغرافیائی حدود وروابط نہیں بلکہ آبادی میں غالب مذہبی تفریق کی بنیاد پر ہوگایعنی جہاں کی اکثریتی آبادی ہندومت اور اسلام میں سے جس مذہب کی پیروکار ہوگی،ان کے لئے لازم ہوگا کہ وہ اسی ملک کے ساتھ شامل ہوں۔ اگرچہ بعض دیسی ریاستوں کو دس سال کی مہلت دی گئی کہ وہ اس دوران اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلیں لیکن بنیادی شرط بہرحال وہی تھی جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ آخرکار انہیں بھی اپنی غالب اکثریتی آبادی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ کشمیر کی مجموعی آبادی میں غالب ترین اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی، اور اسی کے مطابق انہوں نے اپنے مستقبل کا ازخود فیصلہ کیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اسی قانون تقسیم ہند کے تحت بھارت نے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر قبضہ کیا، جہاں کے حکمران مسلمان تھے لیکن آبادی ہندواکثریت پر مشتمل تھی اور جب کشمیر کا سوال سامنے آیا تو اس نے ازخود اس قانون کی دھجیاں اڑا دیں جس کی ابتداریڈکلف نے کی جس نے گورداسپور کی اکثریتی مسلم آبادی پر مشتمل تحصیل پٹھانکوٹ کو بھارت میں شامل کرکے ایک ایسے قضیے کی بنیاد رکھ دی جس نے نہ صرف جمہوری اقدار کے حامل برطانیہ کے چہرے کو داغدارکیا بلکہ اس کے نتیجے میں آج تک چھ لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ اگرچہ بعد میں وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن بری طرح اپنے انجام کو پہنچا، اور ریڈکلف نے اپنے اس غلط اقدام پر معافی بھی مانگ لی لیکن انہوں نے بدقسمتی سے جس مسئلے کی بنیادرکھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی انتہائیں آسمان کو چھونے لگیں۔
بھارت مقبوضہ ریاست میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہاہے۔ اس مقصد کے لیے وہ دیگر دنیا کو اس جانب راغب کررہاہے۔ حیرت انگیز طور پر بھارت کی جانب سے اس طرح کے اقدامات کی دیگر بھارتی ریاستوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بھارت کی مشرقی ریاستوں کی صورت حال نہایت ہی خراب ہے۔ وہاں غربت، پسماندگی، شورش انتہادرجے پر ہے لیکن ان مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ بھارت نے اپنی تمام تر توجہ مقبوضہ کشمیر پر مرکوز کر رکھی ہے۔ یہ اکھنڈ بھارت کے دیرینہ خواب کو پورا کرنے کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر ہی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button