پیر مشتاق رضویکالمز

جنوبی پنجاب کی پہچان تاریخی قلعہ چولستان….پیر مشتاق رضوی

نویں صدی عیسوی میں تعمیر کردہ یہ قلعہ یوں تو چولستان قلعوں اور پرانی عمارتوں کو مرکز ہے لیکن اپنی پہچان آپ یہ قلعہ چولستان کا سب سے مشہور قلعہ ہے

جنوبی پنجاب تاریخی اور تہذیبی و ثقافتی کے لحاظ سے بہت اھمیت کا حامل ہے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں روہی کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے روہی چولستان میں واقع تاریخی "قلعہ دراوڑ ” فن تعمیر
کے حوالے دنیا کے ایک عجوبہ سے کم نہیں چاندنی رات میں اس قلعہ کا طلسمی اور رومانوی منظر دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتا ہے روہی چولستان کی جان اور شان۔اس کا شروع میں نام دیر اول تھا جو بعد میں دراوڑ ہو گیا۔ نویں صدی عیسوی میں تعمیر کردہ یہ قلعہ یوں تو چولستان قلعوں اور پرانی عمارتوں کو مرکز ہے لیکن اپنی پہچان آپ یہ قلعہ چولستان کا سب سے مشہور قلعہ ہے۔ریت کے سمندر میں کسی عظیم بحری جہاز کی طرح کھڑا یہ قلعہ آپ کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاۓ گا جس نے یہاں صبح دیکھی دوپہر دیکھی یا شام دیکھی پھر زندگی میں ایسے لمحے کبھی نا دیکھے اس علاقے میں گزرا اک اک پل امر ہو جاتا ہے کسی حسین یاد کی طرح ہمیشہ آپکو اپنے سحر میں رکھتا ہے تاریخی قلعہ دراوڑ جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول پور سے 100 کلومیٹر تحصیل احمد پور شرقیہ میں شہر سے شمال کی طرف واقع ہے۔قلعہ دراوڑ کی 30میٹر بلند بل کھاتی مربع شکل کی دیواریں، قلعہ کے جاہ و جلال کی ایک عظیم داستان بیان کرتی ہیں۔قلعہ دراوڑ کا فن تعمیر مختلف ثقافتوں حسین
آمیزشن ہے،جو مغل اس برصغیر میں اپنے ساتھ لائے۔مغل طرزِ تعمیر کے اس شاہکار قلعہ میں آپ کوفارس، تیموری اورہندو طرزِ تعمیر کی مشترک خوبیاں نظر آئیں گی۔نظری اعتبار سے اسے آپ دیوارِ سندھ رانی کوٹ سےمشابہ قلعہ قرار دے سکتے ہیں۔ صحرائے چولستان کے عین درمیان واقع اس قلعے کا طلسمی نظارہ دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے۔اس کی سرمئی، کتھئی اور سنہری رنگت ماحول کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔ قلعہ میں 40 برجوں سمیت ایک کنواں، ایک مرکزی دروازہ اور ایک بڑا تالاب ہے، جو سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا مرکز ہے۔ تالاب اب خشک ہو چکا ہے۔ قلعہ میں موجود اکثر کمروں کی دیواریں اور چھتیں گر چکی ہیں جبکہ مرکزی فصیل بھی کمزور پڑ چکی ہے، جس کے کسی بھی وقت منہدم ہونےکا خدشہ ہے۔ قلعہ کے صحن نما میدان میں ایک قدیم اور تاریخی توپ بھی موجود تھی ، جو جنگ کے دوران دشمنوں کے خلاف استعمال کی جاتی تھی مگر آج یہ توپ بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ توپ کے ساتھ ایک سرنگ بھی بنائی گئی تھی، جو قلعہ کے خفیہ راستوں سے ہوتی ہوئی ھندوستان کے علاقے جیسلمیر تک جاتی تھی، جسے بعد میں بند کر دیا گیا تھا
قلعہ دراوڑ کو چولستان میں داخل ہونے کا دروازہ، ’’بابِ چولستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے
برطانوی ادوار میں یہاں قیدیوں کوقید رکھا جاتا تھا اور یہی وہ جگہ ہے جہاں کچھ مکینوں کو پھانسی بھی دی گئی۔
صحرائے چولستان کے دل میں واقع یہ قلعہ اپنے آپ میں ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے ۔ قلعے کی دیواریں اور عالی شان تعمیرات ماضی کی عظیم تہذیب کی گواہی دیتی ہیں اس تعمیر کے بارے میں مورخین کی آراء مختلف ہیں۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس قلعہ کو نویں صدی میں رائے ججہ بھاٹیہ نے تعمیر کروایا بعض مورخین کے مطابق قلعہ کو راول دیو راج بھاٹیہ نے تعمیر کروایا، جو جیسلمیر اور بہاولپور ریاست کا خودمختار راجپوت حکمران تھا۔جب برصغیر میں سلطنتِ درانی کے زوال کا آغاز ہوا۔ عباسی خاندان نے اُچ شریف کے ارد گرد کا علاقہ فتح کر کے یہاں بہاولپور ریاست کی بنیاد رکھی۔
بہاولپور کا شمار برصغیر پاک و ہند کی خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا۔ 18ویں صدی کے اوائل سے قریباً اڑھائی صدیوں تک یہاں کے حکمران رہے موجودہ قلعہ اور عقب میں شاہی مسجد 1733ء میں عباسی حکمران نواب صادق محمد خان اول نے تعمیر کروایا یہ قلعہ مختلف ادوار میں 1966ء تک عباسی خاندان کے استعمال میں رہا اس قلعہ کی دیواریں 674 سے 684 فیٹ تک لمبی ہیں اور زمین سے 100 فیٹ تک اونچی ہیں اس میں موجود 39 برج تعمیر کیے گۓ ہیں جن کو چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے جبکہ دیواروں کی موٹاٸی میں چھوٹے ساٸز کی کچی اینٹوں کی چناٸی کی گٸ اور چناٸی کے لیے مٹی کے گارے کا استعمال کیا گیا قلعہ کے بیرون مشرقی جانب شاہی قبرستان واقع ہے اس کے ساتھ ہی سنگ مرمر سے تعمیر کی گٸ شاہی مسجد واقع ہے نوادرات ایکٹ 1975ء میں قلعہ کو محفوظ قرار دیا گیا تھا 2016ء میں اقوام متحدہ زیلی ادارے یونیسکو نے اس قلعہ کو عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا 1966ء میں نواب صادق خان عباسی کی وفات کے بعد قلعہ انتہاٸی خستہ حالت کا شکار ہوا بعدازاں 2017ء میں محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت کا کام کیا جس میں مرکزی و بیرونی دیوروں بارہ دری مرکزی دروازہ گودام کو مناسب طریقہ سے مرمت کیا گیا۔لیکن اب بھی قلعہ کی خستہ حالی توجہ طلب ہے تاکہ اس قومی و تاریخی ورثہ کو محفوظ بنایا جا سکے اس کی اہمیت کو بحال کیا جاسکے اور پوری دنیا میں اس کی پہچان کراٸی جاسکے۔
کیونکہ یہ سحر انگیز اور رومانوی قلعہ ہے جہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح اور تاریخ دان آتے ہیں اور اس کی طلسماتی کشش بار بار انہیں یہاں کھینچ کے لاتی ہے جنوبی پنجاب کی ترقی و خوشحالی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس علاقے کے قدیمی ثقافتی ورثہ کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے ریاست پاکستان اس سلسلے اپنا یہ فریضہ انجام دے .

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button