آئی ایم ایف کی شرط، سرکاری افسران کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازمی
ایف بی آر کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری افسران اور اُن کے اہل خانہ کو اندرون و بیرون ملک میں موجود اثاثے ڈکلیئر کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں ٹیکس وصول کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے آئی ایم ایف کی شرط پر عملدرآمد کرتے ہوئے سرکاری افسران کے لیے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کو لازمی قرار دے دیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری افسران اور اُن کے اہل خانہ کو اندرون و بیرون ملک میں موجود اثاثے ڈکلیئر کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
ایف بی آر کے نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ تمام بینک سرکاری افسران اور ان کے اہل خانہ کے اکاؤنٹس کی تفصیلات ایف بی آر کو دینے کے پابند ہوں گے۔ بینک یہ تفصیلات سال میں دو مرتبہ 31 جنوری اور 31 جولائی کو ایف بی آر کو فراہم کریں گے۔
ان ہدایات کا اطلاق عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے افسران پر نہیں ہو گا۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان جاری تکنیکی سطح کے مذاکرات ختم ہو گئے ہیں جن میں پیٹرول پر ٹیکس اور اداروں کی نجکاری سمیت نئے مطالبات سامنے رکھے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف نے بجلی، گیس کے بلوں میں اضافے کی شرط بھی رکھی ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے اور لیوی کا ہدف پورا کرنے کا بھی کہہ دیا گیا۔
وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ پاور پلانٹس سمیت خسارے میں جانیوالے سرکاری اداروں کی نجکاری اور معیشت کے شعبے میں ریاستی عملداری محدود کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے کے لیے مذاکرات منگل سے شروع ہوئے جو نو فروری تک جاری رہیں گے۔
رپورٹ کے مطابق مذاکرات میں آئی ایم ایف کے وفد نے بجٹ میں اعلان کردہ فیصلوں کے مطابق بجٹ خسارہ 4.9 فیصد رکھنے اور پرائمری خسارہ جی ڈی پی کا 0.2 فیصد رکھنے کا وعدہ پورا کرنے پر زور دیا۔
آئی ایم ایف وفد نے مطالبہ کیا کہ ’برآمدی شعبے کو 110 ارب روپے کا استثنیٰ ختم کیا جائے، ایف بی آر کی طرف سے 7470 روپے ٹیکس وصولیوں کا ہدف ہر حال میں پورا کیا جائے۔‘
آئی ایم ایف وفد نے گردشی قرضوں میں خاطر خواہ کمی لانے کا بھی کہا ہے۔