بریپ کے سیلاب متاثرین کا اپنے حقوق کیلئے دوسری مرتبہ احتجاجی جلسہ۔ شٹر ڈاون ہڑتال۔ بروغل روڈ بھی بلاک کیا گیا
اس موقع پر بریپ بازار میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال تھی جبکہ وادی یارخون اور بروغل کا مین سڑک بھی کئی گھنٹے بلاک رکھا گیا
ضلع اپر چترال (گل حماد فاروقی) ضلع اپر چترال وادی بریپ کے سینکڑوں لوگوں نے اپنے مطالبات کے حق میں اسی ہفتے دوسری بار اختجاجی جلسہ کیا۔ جلسے کی صدارت سابقہ کونسلر شیلی سلطان نے کی جبکہ ویلیج کونسل کوژ کے ناظم احمد خان اس موقع پر مہمان حصوصی تھے۔اس موقع پر بریپ بازار میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال تھی جبکہ وادی یارخون اور بروغل کا مین سڑک بھی کئی گھنٹے بلاک رکھا گیا۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ 19 اگست 2022 کو وادی بریپ کے اوپر پہاڑی میں واقع ایک گلیشیر پھٹ گیا اس کے نتیجے میں تباہ کن سیلاب شروع ہوا سیلاب کا یہ سلسلہ 6 ستمبر تک جاری رہا۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے 60 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ سینکڑوں ایکڑ زمین پر سیب اور دیگر پھلدار باغات، کھڑی فصل، زیر کاشت زمین بھی تباہ ہوئے اور کئی لوگ بے گھر ہوگئے۔ سیلاب کے نتیجے میں یہاں واحد یوٹلٹی سٹور، ایک مسجد اور تین جماعت خانے بھی بہہ گئے۔ جبکہ کئی لوگوں کے دکانیں، خواتین کے شاپنگ سنٹر اورگرلز ہائی سکول اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔
مقررین نے کہا کہ سیلاب کے بعد سابقہ وزیر اعلے خیبر پحتون خواہ محمود خان نے اس علاقے کا دورہ کیا اور انہوں نے متاثرہ علاقوں کیلئے پچاس کروڑ روپے کا اعلان کیا جس میں 25 کروڑ اپر چترال اور پچیس کروڑ لوئیر چترال کیلئے تھے۔مقررین نے کہا کہ ہم اس اعلان کی راہ تکتے رہے مگر انہوں نے اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے ایک بار پھر یوٹرن لیا اور وہ رقم ابھی تک نہیں پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹنٹ یعنی AKAH کے ریجنل پروگرام منیجر امیر محمد اور ان کا ٹیم نے بھی اس علاقے کا دورہ کیا۔ امیر محمد نے کہا کہ ان برفانی تودوں یعنی گلیشیر کے پاس ایک حاص قسم کا پھلدار پودا ہوتاہے جو گلیشر کو پگھلنے سے روکتا ہے مگر جب بکریاں وہاں گھاس کھاتی ہیں تو اس پودے کو بھی اکاڑ کر کھالیتی ہے جس کی وجہ سے یہ برف پگھل کر سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو یقین دہائی کرائی کہ اگر وہ اپنے بکریاں اور مال مویشی فروخت کرکے حتم کرے تو ان کا ادارہ ان کیلئے چکن گول نالے میں حفاظتی دیوار تعمیر کرے گی جس سے یہ علاقہ محفوظ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی بکریاں اور دیگر مال مویشی اونے پونے دام پر فروخت کئے پچیس ہزار کی بکری کو دس ہزار میں بیچنا پڑا تاکہ AKAH والے ہمارے لئے حفاظتی دیوار بنائے مگر افسوس کا مقام ہے کہ نو مہینے بعد امیر محمد نے آکر کہا کہ سال 2023 میں چکن گول نالے کی حفاظتی دیوار ہمارے سکیم میں شامل ہی نہیں ہیں۔
مقررین نے کہا کہ دوسری بار AKAH کا ریجنل پروگرام منیجر امیر محمد نے کینیڈا کے سفارت حانے کے عملہ کے ساتھ اس سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کیا اس وقت کینیڈا کی سفارت کار صوفے کی بجایے زمین پر ملبے کے اوپر متاثرہ لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر بیٹھ گئے اور انہوں نے بھی پچیس کروڑ روپے امداد کا اعلان کیا۔جب کافی عرصہ گزرنے کے بعد وہ امدادی رقم نہیں آیا تو ہم نے ایک بار پھر امیر محمد سے رابطہ کرکے اس کے بابت پوچھ لیا مگر اس کا جواب تھا کہ وہ رقم صرف بریپ کیلئے نہیں بلکہ پورے چترال کیلئے تھی مگر ہمارے حصے کا رقم ہمیں ابھی تک نہیں ملی۔ اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے AKAH کے آر پی ایم امیر محمد سے بار بار رابطہ کرکے ان کو فون کے ذریعے پیغام بھی بھیجا کہ وہ اس سلسلے میں اپنا موقف دے مگر انہوں نے ابھی تک اس بابت نہ کوئی موقف دیا نہ اور نہ اس کا جواب دیا۔
جلسہ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہوا۔ قرارداد کے ذریعے چکن گول کی چینلایزیشن، یوٹیلٹی سٹور کی بحالی، غلہ گودام میں گندم کی فراہمی،آبپاشی کی نہروں کی بحالی، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں سٹاف کی کمی اور بنیادی مرکز صحت میں ادویات کی کمی کو فوری پورا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ چکن گول نالے میں بار بار سیلاب کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی زندگی ہر وقت حطرے میں رہتی ہے اور یہاں کے لوگ ذہنی مریض بن گئے۔انہوں نے کہا کہ بریپ غلہ گودام میں صرف 130 بوری گندم پڑی ہے جو مہتنگ سے کوژ تک بارہ سو گھرانوں کو صرف ایک کلو گندم فی گھرانا مل سکتا ہے جو نہایت کم ہے۔قرارداد کے ذریعے محکمہ حوراک سے مطالبہ کیا گیا کہ اس گودام میں جلد سے جلد گندم بھیجا جائے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے آبپاشی کی نہری بہہ چکے ہیں جس کی وجہ سے یہاں فصل تلف ہونے کا حطرہ ہے ان کو فوری بحال کیا جائے۔ قرارداد کے ذریعے محکمہ تعلیم کے ارباب احتیار سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بریپ میں سٹاف کی شدید کمی ہے استانیوں کی حالی آسامیوں کو فوری پر کیا جائے۔ چکن گول نالے سے متصل پانچ سو گھرانے ہیں طغیانی کی صورت میں سیلاب کا پانی لوگوں کے گھروں میں داحل ہوتا ہے 2017 سے ہم سرکاری اداروں اور AKAH جو آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کا ادارہ ہے ان کو قرارداد دیتے آرہے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس نالے کی بھل صفائی یعنی چینلایزیشن کی جائے مگر اس پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا اگر اس نالے میں دوبارہ سیلاب آکر کسی کی مال و جان کو نقصان پہنچا تو اس کی تما م تر ذمہ داری متعلقہ اداروں پر ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ بنیادی مرکز صحت میں ادویات کی کمی کو فوری طور پر پوری کیا جائے اور یوٹیلٹی سٹور کو بھی بحال کیا جائے۔جلسہ سے فرمان نظار سابق پوسٹ ماسٹر،ڈاکٹر محمد ہزار خان، مقدار علی خان سابقہ صدر لوکل کونسل، میر رحیم صدر بریپ کلسٹر، اللہ داد خان،امیر حاجی،مسز سراج النساء اور عنبرین بی بی نے اظہار حیال کیا۔بعد میں ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مستوج نے آکر ان لوگوں کو یقین دہائی کرائی کہ وہ تین دن کے اندر ان کے بعض مسائل حل کریں گے۔ متاثرہ لوگوں نے ہمارے نمائندے کو لیکر سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کیا جہاں پبلک ہیلتھ انجنیرنگ کی آبنوشی کی ٹینکی بھی سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوئی تھی اور لوگ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ متاثرین نے الزام لگایا کہ ابھی تک اس محکمے کے کسی انجنیر یا افسیر نے اس ٹینکی کا معائنہ تک نہیں کیا۔ ہمارے نمائندے نے جب محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ کے ایگزیکٹیو انجنیر ارشد اقبال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی پی سی ون تیار ہے اور اس ٹینکی کو دوبارہ تعمیر کرنے کی منظوری بھی ہوچکی ہے مگر فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کام شروع نہ ہوسکا جونہی فنڈ آئے گا وہ اس کی بحالی پر کام شروع کروائیں گے۔مظاہرین نے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مستوج کے یقین دہانی پر احتجاج تین دن کیلئے حتم کرکے راستہ بھی کھول دیا اور دکانیں بھی کھول دئے اور یہ لوگ پر امن طور پر منتشر ہوئے۔ جلسہ میں دس دیہات کے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں، بوڑھوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔
واضح رہے کہ بریپ کے سیب نہایت مشہور ہیں اور سابقہ صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق ان سیبوں کو لینے کیلئے حصوصی طور پر جی ایچ کیو سے ہیلی کاپٹر بھیجا کرتا تھا جو اپنے ملکی اور غیر ملکی دوستوں کوتحفے میں بھیجا کرتے تھے اور لیڈی ڈیانا کو بھی بریپ کے سیب تحفے میں بھیجے گئے تھے۔مگر سال 2005 سے یہاں مسلسل سیلاب آرہا ہے جس کی وجہ یہاں پہاڑوں پر سینکڑوں سال پرانے برفانی تودوں کا پھٹنا ہیمگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ متاثرہ علاقہ گلوف پراجیکٹ میں شامل ہی نہیں ہے۔