”کالے کلائیو “اور” دیسی کرزن‘ ‘:بیڈ گورننس کے ذمہ دار……حافظ شفیق الرحمن
ہر کوئی آہیں بھرتا اوردل ہی دل میں حکمرانوں کا ’منثور‘ اور ’منظوم‘ ہجو نامہ پڑھنا شروع کر دیتاہے۔ مسائل گزیدہ ان دکھیوں سے پوچھئے تو سہی کہ تمہاری آرزوﺅں اور تمناﺅں کی اس جنت کو مسائل کا جہنم کس نے بنایا
جہاں جاﺅ، ایک ہی صدائے کربناک سنائی دیتی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو اس کے ”حکمران طبقات“ نے گزشتہ 75 برس سے مسائلستان بنا رکھا ہے۔یہ بد خبری جو سنتاہے جگر تھام کے بیٹھ جاتاہے۔ ہر کوئی آہیں بھرتا اوردل ہی دل میں حکمرانوں کا ’منثور‘ اور ’منظوم‘ ہجو نامہ پڑھنا شروع کر دیتاہے۔ مسائل گزیدہ ان دکھیوں سے پوچھئے تو سہی کہ تمہاری آرزوﺅں اور تمناﺅں کی اس جنت کو مسائل کا جہنم کس نے بنایا؟ کھٹ سے، یہ زخم خوردہ اس مملکت کے جملہ صدور اور وزرائے اعظم کے اسمائے گرامی باالترتیب گنوانا شروع کر دیں گے۔ جرنیلی سڑک،شیطان کی آنت، ہجر کی شب اور آمروں کی ستم رانیوںکی داستان سے بھی طویل ”مجرموں“ کی اس فہرست کو سن سن کر یقیناً آپ کی سماعت بارہا مجروح ہوئی ہوگی۔ ان سادہ لوحوں اور بھولے بادشاہوں کو کون یہ بتلائے کہ جن لوگوں کو وہ آج تک اپنا منتخب اور جمہوری حکمران سمجھتے رہے، درحقیقت وہ ان کے حکمران نہیں تھے ۔ یہ تو سب ریموٹ کنٹرولڈ روبوٹس ، مرغانِ دست آموز ،خدامان با ادب اورکٹھ پتلیاں تھیں اور ہیں، جن کی ایک ایک حرکت اور جنبش،برطانوی سامراج کی مکروہ باقیات ”کالے لاٹ صاحبان“ اور” دیسی صاحب بہادروں“ کی نگاہِ کرم کی محتاج رہتی ہے….یہ ”کالے کلائیو “اور” دیسی کرزن‘ ‘ہی دراصل اس ملک کے ”اصلی تے وڈے“ حکمران ہیں۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، ایم این ایز اور ایم پی ایز کی آڑ میں ڈی سی او صاحب بہادران اور وفاقی و صوبائی سیکرٹری صاحب بہادران حکومت کرتے ہیں۔”کٹھ پتلیاں“ تو ان کے اشاروں پر ”راج نرتکی“ کی طرح کبھی مور پنکھی ناچ کا نقش جماتی ہیں اور کبھی تگنی کاناچ ناچتی ہیں۔
ایک دور میں ایک مضبوط ترین منتخب عوامی حکومت کے وزیراعلیٰ تک کویہ دہائی دےنا پڑی تھی : ”بڑے بڑے لوگ آئے مگر کسی نے غریبوں کیلئے کچھ نہیں کیا“۔یہ بات کوئی گلی محلے کا عام سیاسی کارکن کہتا تو شنیدنی تھی لیکن جب ایک وزیراعلیٰ بھی بے بسی کا اظہار کر دے تو ہماشما داد فریاد لے کر کس کے دروازے پر دستک دیں۔پروفیسر احسن اقبال کو تو یہ راز بھی منکشف کرنا پڑا کہ”پاکستان میں ایک تھانے کا ایس ایچ او جن اختیارات کا مالک ہوتا ہے، وزیر اعظم بھی ان کا تصور نہیں کرسکتا“۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف 4 مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے کے باوجود بھی تھانہ کلچر کی اصلاح کرنے سے قاصر دکھائی دیے ۔
اس ملک میں جہاں 70 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے…. 14 کروڑ افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے…. جہاں60 لاکھ افراد بے روزگار ہیں…. 25لاکھ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان ڈگریوں کو کشکول بنائے آفس ٹو آفس…. گیٹ ٹوگیٹ….ٹیبل ٹو ٹیبل اور فیکٹری ٹو فیکٹری نوکریوں کی بھیک مانگ رہے ہےں…. 40فیصدکو روٹی نہیں ملتی…. ہزار میں90 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں…. سکول جانے کے قابل ساڑھے4 کروڑ بچے تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں…. پانچ سال سے کم عمر2 کروڑ 50 لاکھ بچوں کو ناکافی غذا ملتی ہے…. 70فیصد آبادی نکاسی آب کی سہولت سے محروم ہے…. 55فیصد گھر لوڈ شیڈنگ زدہ بجلی کی قطرہ قطرہ روشنی کو ترس رہے ہیں…. ایک گھر میں اوسطاً 7افراد زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں…. …. اور….11کروڑ آبادی ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے…. اس ملک میں جہاں راوی، سندھ، جہلم اور چناب بہتاہے، ایک فیصد اپر کلاس سے ”برطانوی بیورو کریسی کے چربے“ ساز بازکر کے گزشتہ72 برسوںسے عوام کا استحصال کر رہے اور ان کا کچومر نکال رہے ہےں۔
سول بیورو کریسی کا سیاسی حکمرانوں پر تسلط اورغلبہ و استیلاءاس حد تک ہے کہ 1998ءمیںایک تقریب میں جہاں ایوارڈ تقسیم کئے جا رہے تھے،آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے۔ چیف سیکرٹری دیر سے آئے اور پچھلی نشستوں پر تشریف فرما ہو گئے۔ وزیراعلیٰ جب سٹیج پر آئے تو آدھے ایوارڈز اپنے دست مبارک سے تقسیم فرما چکنے کے بعد انہوں نے دیر سے آنے کی وجہ سے پچھلی نشستوں پر موجود چیف سیکرٹری کو دعوت دی کہ وہ تشریف لائیں اور بقیہ ایوارڈز اپنے غالب و کار آفریں، کار کشا و کار ساز ہاتھوں سے بانٹیں۔ بھاری مینڈیٹ کاحامل وزیراعلیٰ جب ایک بیورو کریٹ کی اس خوشامدانہ پیرائے میں پذیرائی کرے گا تو عوام کب جرا¿ت کریں گے کہ وہ ان ”خداوندانِ حکومت“ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔ جب تک سیاسی حکمران طبقہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ان اکڑی گردنوں اوربے تاثر چہروں والے روبوٹوں کے اشاروں پر مسمرائزڈ اور ہپناٹائزڈ ”معمول“ کے مطابق سرتسلیم خم کر کے ہر حکم بجا لانے پر آمادگی ظاہر کرتا رہے گا، یہ ملک ”مسائلستان“ بنا رہے گا۔
دکھی عوام کے مسائل نہ تو نواز شریف کے پچھلے ادوار کی ”کھلی” کچہریوں میں حل ہوسکے اور نہ ہی اس دور کی ”بند“ اونچی کچہریوں میںحل ہوئے ۔
بار بار اورچار چار مرتبہ اقتدار اور ملکی خرانہ لوٹنے والے ان سیاستدانوں میں سے جب کوئی عام انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران بڑے دھوم دھڑکے اور طمطراق کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ اگر عوام اسے مزید ایک بار نازنینِ اقتدار کی خم بہ خم زُلفوں اور کاکل ِپیچاں کے حلقوں سے کھیلنے کا موقع فراہم کرد یں تو حصولِ انصاف کے لیے انہیں دردر کے دھکے نہیں کھانا پڑیں گے،انصاف انہیں ان کی دہلیز پر ملے گا…. تو…. بھولے بھالے اور سادہ لوح عوام ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انصاف نامی گوہرشب چراغ، 169برس ہونے کو آئے، ان کے کاخ و کو سے بالجبر اغوا کر لیا گیا تھا۔ آزادی کے72 برس گزرنے کے بعد بھی آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا کہ اس ”معصوم“ کو زمیں نے نگل لیا یا آسماں نے اچک لیا۔ کسی گوشے سے آج تک اس بارے کوئی مصدقہ اطلاع موصول نہیں ہوئی۔اس ملک کے بد قسمت عوام کو آزادی کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ وہ بر طانوی سامراج کی غلامی سے رہا ہوئے اور اُن کے نئے حکمران طبقات نے اُنہیں دوبارہ انتہائی تیزی سے اُبھرتے ہوئے نئے امریکی استعمار کی غلامی کی نئی نویلی بیڑیاں پہنا کر دوبارہ غیر ملکی استعمار کاغلام بنادیا۔ یہ کارنامہ اُنہوں نے اتنی تیزی ، پھرتی، فنکاری، پر کاری، عیاری ، چالاکی اور مستعدی سے انجام دیا کہ نو آزاد مملکت کے باسیوں کو کانوں کان اس کی خبر نہ ہو سکی ۔آج ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہیں لیکن ذہنی ، فکری ، اقتصادی ،نظری اور حکومتی سطح پر بد ستور غلام ہیں۔
جب کوئی ساحر سیاستدان اپنی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پر عوام کو یہ باورکروا دیتا ہے کہ اب ماضی کی ستم رانیوں کاازالہ ہو گا تو یہ اس کے دام ِہمرنگِ زمیں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اب اچانک ان کی ” متاعِ گم گشتہ “کی بازیافت اوربازیابی کامژدہ¿ جانفزا ملے گا اور انصاف جنس پیش پااُفتادہ کی طرح ان کے بے در جھونپڑے کی خستہ و شکستہ دہلیز پر ”میٹ“کی طرح پڑا ہوگا۔ کجا عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کے دعوے اور کہاں عوام کو حصول انصاف کے لیے اپنے آستانے پر طلب کرنے کی مغلیہ شاہانہ روایت کا فروغ۔ حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں اور فلک شگاف یقین دہانیوں کے باوجود جب عوام کو کہیں بھی انصاف کا روئے زیبا دکھائی نہیں دیتا، تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق وہ ان عالیجاہوں کی عالیشان رہائش گاہوں کا گھیراﺅ کر لیتے ہیں۔اس عوامی محاصرے اور گھیراﺅ کو چابک دست سیاستدانوں نے بڑی فنکاری کے ساتھ ”کھلی کچہری“ کانام دے رکھاتھا ۔ ان کھلی کچہریوں میں ”ظل سبحانی“ انصاف بھی یوں فراہم کرتے، جیسے خیرات بانٹ رہے ہوں۔
اگر کوئی حکمران مظلوم کی دادرسی کرتا یا اسے انصاف دلانے میں معاون و مددگار ہوتا ہے تو یہ اس کا فرض ہے، اس فرض منصبی کوبھی ہمارے زمانے کے ”نوشیروانوں“ نے تحسین و ستائش اور سستی شہرت کے حصول کا ایک ذریعہ بنائے رکھا۔ مہذب دنیا کی کسی عدالت اور کچہری میں ”جج صاحب زندہ باد“ یا ”جج دے نعرے وجن گے“ کی صدا سنائی نہیں دیتی۔ کیا فرماتے ہیں وکلائے آئین ِمتین بیچ اس مسئلہ کے کہ کیا کسی بند عدالت یا کھلی کچہری میں لاٹھی چارج، دھکم پیل یا نعرے بازی پر توہین عدالت ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، یا نہیں؟
یہ کھلی کچہریاں لاڑکانہ میں لگیں….ریحانہ میں، لاڑکانہ میں، سندھڑی میں ، لاہور میں، جھل مگسی میں،ملتان میں، گوجر خان میں،چوٹی زیریں میں،گجرات میں یا رائے ونڈ میں…. یہ کہیں بھی لگیں….یہ اس بات کامنہ بولتا ثبوت ہیں کہ حکومتیں خلق خدا کو انصاف مہیا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہےں۔حصول انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بیڈ گورننس ہے۔حکمران سوٹ پوش ہوں، وردی پوش ہوں، صدری پوش ہوں یا شیروانی پوش….بیڈ گورننس کی ذمہ داری بالواسطہ سول بیورو کریسی ہی پر عائد ہوتی ہے۔مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا ایک بڑا سبب مغربی پاکستان سے جانے والے سول بیوروکریٹوں نخوت اور عوام بیزاری بھی ہے۔
ایک جامع حکمت عملی اورگرینڈ انقلابی آپریشن کلین اپ کے ذریعے فرعون صفت افسر شاہی کی ”تہذیب“ کے لیے اس کی مشکیں کیوں نہیں کسی جاتیں؟ ارباب دانش ارباب اقتدار سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ کے عہد کی اس ”نک چڑی اور مغرور بیورو کریسی“ کی رعونت کا گراف کب نیچے آئے گا؟ اور وہ سورج کب طلوع ہو گا جب یہ حقیقی حاکم خود کو عوام کا خادم تسلیم کرتے ہوئے عوامی خدمت کے لیے آمادہ و کمر بستہ دکھائی دیں گے؟ عوام کے ان خادموں کے ذہنوں پر چھایا ہوا حاکمیت کانشہ ہرن کرنے کے لیے کب قانون سازی کی جائے گی؟
کیا عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی پارلیمنٹس اور حکومتیں دیسی لاٹ صاحبان کی سینہ زوری اور دیدہ دلیرانہ رعونت و نخوت کو نکیل ڈالنے کےلئے موثر اور قابل عمل درآمد قانون سازی کرنے میں کامیاب ہوسکیں؟ہماری سول بیورو کریسی آج بھی نوآبادیاتی دور میں زندہ ہے اور اسی دور کی مکروہ روایات کے متعفن لاشوں کو سینے سے چمٹائے ہوئے ہے۔اس استعمار ساختہ اور سامراج نواز بیورو کریسی کو کون باور کروائے گا کہ جارج پنجم کا دور لد چکا ہے اور اس خطے کے غلام شہریوں کوآزاد ہو ئے 75 برس بیت چکے ہیں۔