ایم آر ملککالمز

امید کی آخری کرن؟….ایم آر ملک

جس روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کا تحفظ کرتے ہوئے عدالت عظمٰی کا بھرم بحال کرنا چاہا اس روز مجھے سید سجاد علی شاہ اور ان کے اقدامات کا پس منظر یاد آیا

آڈیو،وڈیو کا کاروبار کرنے والے جہاں تک جاسکتے ہیں چلے گئے اب یہ کھیل اختتام چاہتا ہے
جس روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کا تحفظ کرتے ہوئے عدالت عظمٰی کا بھرم بحال کرنا چاہا اس روز مجھے سید سجاد علی شاہ اور ان کے اقدامات کا پس منظر یاد آیا
جب انہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے انتہائی عجلت میں از خود نوٹس لیا،پھر مافیا اپنے غنڈوں کے ساتھ عدل کے ایوان پر چڑھ دوڑا –
مجھے یاد آیا کہ وطن عزیز کو ہر دور میں مافیا کی دیمک کس طرح چاٹتی رہی،مشرف دور میں کی جانیوالی وطن عزیز کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ سٹیل ملز کی نجکاری یاد آئی جس میں 40ہزار مزدور کام کرتے تھے ایک درآمدی وزیر اعظم شوکت عزیز نے 29مارچ 2006کو بولی دینے والوں کو بلایا اور31مارچ کو اس صنعتی یونٹ کو بیچ دیا
مجھے یاد آیا کہ کیسے آج کی طرح تیل اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے قیمتیں بڑھائی گئیں جس میں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہاتھ تھا،اسی دور میں پبلک پارکس کو منی گالف یا کمرشل کمپلیکس میں تبدیل کرنے کے خلاف ایک سابق چیف جسٹس جس میں اسلام آباد اور لاہور کے کیسز بھی شامل تھے نوٹس لے چکے تھے اور انہوں نے اسلام آباد سے مری جانے والے نئے راستہ پر نیو مری نامی ایک امیرانہ شہر کی تعمیر کے دوران درختوں کو کاٹنے سے روکنے کا حکم دیا
مجھے لاپتہ افراد کے غائب ہونے پر تحقیقات کا حکم یاد آیا۔
مجھے گوادر پورٹ کا زیر سماعت وہ مقدمہ یاد آیا جو زمین کے گھپلوں کے متعلق تھا۔
مجھے انسانی حقوق کے وہ 6000کیسز یا د آئے جن کا انہوں نے ایک سال میں از خود نوٹس لیا تھا۔
مجھے ایوان عدل میں بیٹھے وہ ساٹھ منصف یاد آئے جنہیں ایک آمر نے پابند سلاسل کر دیا۔
مجھے چیف جسٹس کا وہ انکار یاد آیا جس نے عدل کے شعور کو جگایا۔
ایک سابقہ چیف جسٹس کی معطلی کے بعد پاکستانی عوام کا مزاحمتی کلچر اور انصاف کی امنگ کیلئے ابھر کر سامنے آنا یاد آیا
میرے شعور کے کینوس پر دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی مدت گزر جانے کے باوجود سول آمریت کے تلے الیکشن سے مسلسل انکار اور فرارکے کیس کا پس منظر ابھرا کہ وہ قوتیں جو کل آمریت کی چھتری تلے اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں آج وہی قوتیں جمہوری آمریت کی چھتری تلے اقتدار کی بہتی گنگا میں اشنان کر رہی ہیں
یہی وہ قوتیں تھیں جنہوں نے سابق آمر مشرف کو عدلیہ سے ٹکرانے کا مشورہ دیا
پبلک پارکس کو منی گالف اور کمرشل کمپلیکس میں تبدیل کرنا چاہا جنہوں نے گوادر پورٹ کی قیمتی اراضی میں گھپلے کئے اور انتہائی عجلت میں وطن عزیز کے ایک ایسے یونٹ کا سودا کرنا چاہا جس سے وطن عزیز کا معاشی مستقبل وابستہ تھا
مجھے ذوالفقار علی بھٹو کیس کے پس پردہ انہی قوتوں کا ہاتھ کارفرما نظر آیا۔
خون میں بھیگا مجھے 12مئی یاد آیا جس روز روشنیوں کے شہر میں ایک سابقہ چیف جسٹس کی والہانہ محبت میں نکلنے والے شہریوں کا استقبال 51جانوں کے ضیاع اور 150سے زائد افراد کو زخم دینے پر اختتام پذیر ہوا روشنیوں کے شہر پر تنی خوف کی چادر میں گو بے شمار چھید تھے مگر وہاں کے باسی امید کی کرن عدلیہ کو ابھرتا دیکھ رہے تھے ,12مئی کے واقعہ میں در پردہ سفاکی منظر عام پر آکر عدلیہ کا منہ چڑا رہی تھی۔
مجھے ایوان عدل میں بیٹھے مرحوم جسٹس ایم آر کیانی کے فیصلے یاد آئے
مجھے مہنگائی کے ہاتھوں جھولنے والی وہ لاشیں یاد آئیں اشیائے ضرورت میں اضافہ کرکے موجودہ حکمرانوں نے جن سے جینے کا حق چھین لیا
23کروڑلوگ جن کا معیار زندگی انتہائی پسماندہ اور ناقابل برداشت ہے وہ اذیت ناک استحصال اور ذلت آمیز زندگی سے نجات پانے کیلئے عدلیہ بحالی کا ہراول بننے والے ہیں،بھوک، ننگ، افلاس،غربت،بیماری اور بیروزگاری کے عذابوں میں وہ اکثریت جس کے پاس صرف دو ہی راستے بچے ہیں ایک زندہ لاشے بن کر ان اذیتوں کو برداشت کرنا یا موت کو گلے لگاکر جاں سے گزر جانا اس اکثریت نے ایک بار پہلے بھی ایک چیف جسٹس بحالی کی خاطر شاہرات پرنکل کر موت کے سائے میں عدلیہ بحالی کا خواب دیکھا۔مگر یہ خواب تعبیر سے قبل ہی بکھر گیا
عوام اب بھی ایک چیف جسٹس کے خلاف ہونے والی ہر سازش کے خلاف حد سے گزر جائیں گے
مگرمجھے جنا ب چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے کہنا ہے!
جہاں محنت کرنے والوں پر معاشی حملوں کی یلغار ہو رہی ہو۔
جہاں بیروزگاری کی اذیت میں پوری نسل مبتلا ہو۔
بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہوں۔
معاشرہ ویڈیو اور آڈیوجیسے گندےکاروبار کی گھٹن اور تعفن میں سسک رہا ہو۔
غنڈہ گردی اور قبضہ گروپوں کا سیاست پر راج ہو۔
کالی دولت اہم فیصلے کرتی ہو کالا دھن اپنے مفادات کیلئے جنون کو ایک کاروبار بنا چکا ہو اور اس سے جنم لینے والے خوف و ہراس نے پورے سماج کو ایک نفسیاتی ڈر میں مبتلا کر رکھا ہو۔
بیماریاں بڑھ رہی ہوں اور علاج سکڑ رہا ہو۔
اس ذلت محرومی اور بربادی کے معاشروں میں امید کی آخری کرن عدلیہ ہوتی ہے کیا یہ اذیتیں ان23کروڑ انسانوں کے مقدر میں لکھی ہیں کیا یہ فرمان الٰہی ہے کہ 23کروڑ گلے،سڑے ڈھانچے پانی سے لے کر بجلی تک روٹی سے لے کر کپڑے اور مکان تک کو ترسیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button