
برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم کے پہلے کیس کی تصدیق
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یو کے ایجنسی نے جمعہ کے روز بتایا کہ ’کورونا وائرس کی نئی قسم BA.2.86 کے پہلے کیس کی نشان دہی ایک ایسے شخص میں ہوئی ہے جس نے حال میں میں کوئی سفر بھی نہیں کیا ہے۔‘
برطانیہ کی ایجنسی برائے تحفظ صحت یوکے ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے) نے ملک میں کورونا وائرس کی نئی قسم BA.2.86 کے پہلے کیس کی تصدیق کردی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یو کے ایجنسی نے جمعہ کے روز بتایا کہ ’کورونا وائرس کی نئی قسم BA.2.86 کے پہلے کیس کی نشان دہی ایک ایسے شخص میں ہوئی ہے جس نے حال میں میں کوئی سفر بھی نہیں کیا ہے۔‘
جمعرات کو بیماریوں پر قابو پانے اور ان سے بچاؤ کے امریکی ادارے ’یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن‘ نے بتایا تھا کہ وہ وائرس کی اس نئی اور تیزی سے شکل تبدیل کرنے والی قسم کا سراغ لگا رہا ہے جو کہ کورونا وائرس کا سبب بنتی ہے۔
واضح رہے کہ کورونا کی اس قسم کی شناخت اسرائیل، ڈنمارک اور امریکہ میں بھی ہو چکی ہے۔
اس سے قبل دسمبر 2021 میں برطانیہ نے کورونا وائرس کی اُس وقت کی نئی قسم ’اومی کرون‘ سے پہلی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت نے رواں برس مئی میں اعلان کیا تھا کہ ’کورونا وائرس (کووڈ 19) اب عالمی ایمرجنسی نہیں رہا.‘
تاہم ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا تھا کہ ’یہ وائرس گردش کرتا رہے گا اور شکل بدلتا رہے گا، جس سے انفیکشن، ہسپتال میں داخل ہونے اور کبھی کبھار اموات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔‘
عالمی ادارہ صحت کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے گے باوجود کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں کمی کا سلسلہ برقرار ہے جبکہ ویکسین کی وجہ سے لوگوں کی قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘
یاد رہے کہ 30 جنوری 2020 کو کورونا وائرس کو عالمی ایمرجنسی قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو تین سال بعد اب واپس لے لیا گیا۔
اپنی ہفتہ وار اپ ڈیٹ میں اقوام متحدہ کی ایجنسی نے بتایا تھا کہ مختلف ممالک نے رواں برس 10 جولائی سے 6 اگست تک کورونا وائرس کے تقریباً 15 لاکھ نئے کیسز رپورٹ کیے۔
’یہ تعداد گذشتہ 28 دنوں کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہے، تاہم اموات کی تعداد 57 فیصد کم ہو کر 2500 تک آگئی ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت نے خبردار بھی کیا تھا کہ وائرس کے کیسز اور اموات کی تعداد حقیقی اعدادوشمار کی مکمل عکاسی نہیں کرتی۔‘
’اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ممالک وبا کے ابتدائی مراحل کے مقابلے میں اب اس کی بہت کم ٹیسٹنگ اور نگرانی کرتے ہیں۔‘