‘ووٹ کی طاقت سے بنا ہے پاکستان…… پیر مشتاق رضوی
قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ 'صدیوں پہلے پاکستان اسی روز وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان بنا"
خلفائے راشدین کے دور میں برصغیر پاک و ہند میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آمد کا تذکرہ تواریخ میں ملتا ہے جنہوں نے ہندوستان کے بت کدوں میں اسلام کی شمع روشن کی اور تبلیغ اسلام کا سلسلہ شروع کیا 712ء عیسوی میں محمد بن قاسم نے اپنی شاندار فتوحات کے ساتھ ملتان تک اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی بعد ازاں مسلم فاتحین نے ہندوستان میں گاہے بگاہے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اس دوران مسلم فاتحین کے ساتھ سادات عظام ،اولیا ء اور صوفیاء کرام کی ایک بڑی تعداد بھی ہندوستان میں آئی جنہوں نے ہندوستان کے چار سو اسلام کا بول بالا کیا اور بالاخر مسلمان ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکمرانی کرتے رہے ہندوستان اس سے قبل راجدھانیوں، جاگیروں اور مختلف نسلی ریاستوں میں تقسیم تھا مسلمانوں نے ہندوستان کو ایک متحدہ ریاست بنایا اور ایک مسلم سلطنت قائم کی مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں انگریز تاجروں کے بھیس میں ائے انہوں نے ہندوستان میں سازشی کاروائیوں کے ساتھ درپردہ اپنے قدم جمانا شروع کئے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کمزور ترین سلطنت کا خاتمہ کر کے انگریز قوم نے ہندوؤں اور غداروں کو ساتھ ملا کر ہندوستان پر مکمل قبضہ جما لیا اس دوران مسلمانوں اور حریت پسند ہندوؤں نے انگریزوں کو ہندوستان سے یاہر نکالنے کے لئے مسلح جدوجہد کی تواریخ میں انگریز سامراج کے خلاف سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان تحریک آزادی کے سرخیل نظر اتے ہیں انگریز سامراج نے مسلمانوں سے اقتدار چھین کر برصغیر پاک و ہند پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا اور استعماری غلبہ حاصل کیا اسی لئے انگریز مسلمانوں کو اپنا حقیقی دشمن سمجھتا تھا 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز سامراج نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی حریت پسندوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا انتہائی بہیمانہ طریقوں سے حریت پسندوں کو پھانسیاں اور توپ دم کیا گیا مسلمانوں کو پستیوں کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیاگیا یہاں تک کہ مسلمانوں کی اپنی شناخت بھی ختم ہو کے رہ گئی اسلامی تشخص کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ تاریخ کا سب بڑا چیلنج تھا 1857ء کی جنگ ازدی کے بعد سر سید احمد خان قوم کے مصلح بن کر ابھرے، وقت کے انگریز حکمرانوں اور مسلمان رعایا کے مابین مفاہمت کرانے میں کامیاب رہے انہوں نے مسلم تشخص کی بحالی کے لیے سب سے پہلے دو قومی نظریہ پیش کیا انگریزوں اور ہندوؤں کو باور کرایا کہ ہندوستان میں رہنے والے سب ہندوستانی ایک قوم نہیں، بلکہ مسلمان ایک علیحدہ قومی وجود رکھتے ہیں تحریک علی گڑھ کی بدولت مسلمانوں کو تعلیم یافتہ قیادت میسر ائی سر سید احمد خان کے بعد اس قیادت نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلم لیگ قائم کر کے اپنی آئینی اور قانونی جدوجہد کا آغاز کیا آل انڈیا مسلم لیگ کو جب قائد اعظم کی قیادت نصیب ہوئی تو شروع میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندو مسلم اتحاد کا بیڑا اٹھایا اس سلسلے قائد اعظم کی کوششوں سے 1916ء میں لکھنو میں مسلم لیگ اور کانگرس کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں برصغیر مسلمانوں کو بڑی پیش رفت ہوئی کہ اکثریت ہندو قوم نے مسلمان کے الگ وجود کو تسلیم کیا اور مسلمانوں کے جداگانہ حق انتخاب کو بھی قبول کیا لیکن بعد میں ھندووں کے نیتا نہرو نے میثاق لکھنو کی خلاف ورزی کی اور نہرو رپورٹ پیش کر دی جس میں مسلمانوں کے تسلیم شدہ قومی وجود اور جداگانہ حق انتخاب کو مکمل طور پر رد کر دیا گیا ہندوؤں کے تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قائد اعظم نے اپنی جدوجہد کا تعین ازسرنو کیا اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی نہرو رپورٹ کے جواب میں قائد اعظم نے اپنے مشہور 14 نکات پیش کیے جو مسلمانوں کے حقوق کے علاوہ دیگر اقلیتوں کےتحفظ کو یقینی بنانے کا ایک مکمل اور جامع سیاسی فریم ورک تھا 1930ء میں مفکر پاکستان علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لیے قائد اعظم کی شبانہ روز کوششیں جاری رہیں 1940ء میں قرارداد لاہور کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی اصل جدوجہد اور منزل کا تعین کرلیس اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ایک جمہوری جدوجہد کا باقاعدہ اغاز کیا 1945ء اور 1946ءکے صوبائی اور مرکزی کونسل کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نے ریکارڈ ساز تاریخی کامیابی حاصل کی ان انتخابات میں مسلم لیگ کا انتخابی منشور تھا
"بن کے رہے گا پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان”
جبکہ کانگرس کا انتخابی منشور "اکھنڈ بھارت ” تھا قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیم ہند کے حوالے سے دنیا بھر سے مثالیں پیش کر کے پاکستان قائم کرنے کے مطالبے کو عملی تعبیر دی قائد اعظم۔ نے ایک جمہوری جدوجہد کے ذریعے اور ووٹ کی طاقت سے 14 اگست 1947ء کو پاکستان حاصل کیا
قائد اعظم محمد علی جناح کی سات سالہ سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے دوران دنیا کی تاریخ اور نقشہ بھی بدل گیا قائد اعظم نے دنیا میں آزادی کا بے مثل انقلاب برپا کیا جودنیا بھر میں نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کا سبب بھی بنا اس طرح قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے نجات دھندہ بھی ہیں اس انقلاب نے دنیا بھر کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا کہ قائد اعظم کوئی طویل مسلح جنگ لڑے بغیر اور قتل و غارت کے بغیر ایک آزاد مسلم ریاست پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے مسٹر جناح کے پاس کوئی بڑی فوج تھی نہ کوئی ریاست نہ دولت کے انبار تھے اپنے پرائے سبھی مسٹر جناح کے مخالف تھے قائد اعظم انگریز جیسی طاقتور قوم جس کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا سے سیاسی طور پر نبردآزما ہوئے اس کے ساتھ دنیا کی مکار ترین متعصب ہندو قوم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ اس وقت کا مولوی طبقہ قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافر ستان کہتا تھا یونینسٹ سرداروں وڈیروں خوانین اور انگریزوں کے پروردہ غداران ملت بھی قائد اعظم کے خلاف تھے لیکن قائد اعظم اتحاد، یقین محکم اور تنظیم کے سہارے اللہ پر مکمل یقین رکھتے ہوئے اپنی قوم میں اتحاد پیدا کر کے تحریک آزادی میں سرخرو ٹھہرے اور انگریزوں کو انہی کے قانون سے مات دی اور فتح یاب ہوئے جو جدوجہد آزادی گزشتہ تین صدیوں سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے جاری تھی وہ قائد اعظم کے حسن تدبر سے اپنے منطقی انجام کو پہنچی انگریز سامراج برصغیر سے نکلنے پر مجبور ہو گیا لیکن ہندو قوم نے انگریزوں کی غلامی کو پہلے کی طرح تقسیم ہند کے بعد بھی قبول کیا جس کا واضح ثبوت بھارت کا پہلا گورنر جنرل لارڈ ماؤٹ بیٹن کو بنایا گیا قائد اعظم نے علامتی طور پر بھی انگریزوں کی حکمرانی کو تسلیم نہ کیا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کا بھی پہلا گورنر جنرل بنتا لیکن قائد اعظم نے سامراج کی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا اور قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ
” پاکستان تا قیامت رہنے کے لیے بنا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے ختم نہیں کر سکتی”
لیکن قیام پاکستان کے76 سال بعد آج پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ” جس قوم نے پاکستان بنایا تھا آج پاکستان اسی قوم کی تلاش میں ہے۔۔”
"یوں دی ہمیں ازادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان”