اطہر قادرحسنکالمز

عوام الیکشن کے لئے تیار ہیں (غیر سیاسی باتیں….. اطہر قادرحسن)

ہمارے سیاست دان ایک بار پھر الیکشن کے لئے کمر کس رہے ہیں لیکن کمر کسنے کے ساتھ ساتھ شک و شبے میں بھی مبتلاء ہیں

ایک طرف عوام کی آہ و بکا ہے اور دوسری طرف ہمارے سیاست دان ایک بار پھر الیکشن کے لئے کمر کس رہے ہیں لیکن کمر کسنے کے ساتھ ساتھ شک و شبے میں بھی مبتلاء ہیں کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ باوجود اس کے کہ نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں جن کا آئینی فرض ہی ایک مقررہ مدت میں الیکشن کرا کے رخصت ہو جانا ہوتا ہے لیکن نہ جانے کل تک کے حکمران اس شک میں مبتلاء ہو گئے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ ہمارے کل کے حکمران اپنے دور حکومت میں دو صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن سے راہ فرار اختیار کر کے آئین شکنی کے مرتکب ہو چکے ہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے متعلق شک و شبہات کا شکار ہیں۔ اب بات اس حد تک چلی گئی ہے کہ مسلم لیگ نوازکے ایک پرُ جوش ترجمان نے جذبات سے مغلوب ہو کر یہ تک کہہ دیا ہے کہ الیکشن کے انعقاد میں اگر تاخیر کی گئی تو بطور احتجاج نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ٹرک پر سوار ہوں گے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ تحریک انصاف کو بھی اس میں شامل کر لیں گے۔ یہ خبر پڑھ کر پہلے تو یقین نہیں آیا کہ سیاست دانوں کا جو اتحاد تحریک انصاف کے رہنماؤں کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں ہے وہ الیکشن کے حصول کے لئے تحریک انصاف کی ہمراہی میں بھی ایک ساتھ احتجاجی ٹرک پر سوار ہونے کو بے تاب اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نگران حکمران سیاستدانوں کی جمہوریت کے استحکام کے لئے لاتعداد کوتاہیوں کے باوجود ملک میں عام انتخابات کا ڈول ڈالنے جارہے ہیں شنید یہ ہے کہ آئین میں انتخابات کے دورانئے کی جو چھوٹ مقرر کی گئی ہے اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی انتخابات ہوجائیں گے۔
۲
پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم ان دنوں لندن میں مقیم ہیں میاں شہباز شریف نے اپنے بڑ ے
بھائی میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کا عندیہ دیا ہے وہ لندن میں سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں پاکستانی لیڈروں کی ان لندنی ملاقاتوں سے کیا نتیجہ نکلے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کوانتخابی مہم کے دوران اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے سے دور رکھنے پر قائل کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اور میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی کا جہاز پکڑنے کا بہت حد تک انحصار بھی اسی بات پر ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے روح رواں آصف علی زرداری بھی حکومت کے خاتمے کے بعد دبئی پہنچ چکے ہیں اور وہاں بیٹھ کر اس ٹوہ میں ہیں کہ کون سی جماعت کتنے پانی میں ہے تا کہ اس کی حیثیت جانچ کر اس سے انتخابی اتحاد کا فیصلہ کیاجا سکے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں مزے لوٹنے والے اتحادی ایک دوسرے پر تبرے شروع کر چکے ہیں اور توقع کے عین مطابق حکومت کے خاتمے کے بعدپیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ملک کی معاشی ابتری کا ذمہ دار نواز لیگ کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کایاں لیڈر آئندہ انتخابات میں جہاں پر تحریک انصاف کو نشانے پر رکھیں گے وہیں پر ان کا اصل نشانہ نواز لیگ ہو گی۔توقع یہ کی جارہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کامحدود کردار ہو گا اور پنجاب میں اصل انتخابی معرکہ دونوں پرانے حریفوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان ہوگا۔ محدودے چند نشستیں جہانگیر ترین کی نومولد پارٹی کے حصے میں بھی آئیں گی کیونکہ ان کے پاس نام نہادالیکٹیبلز کی ایک معقول تعداد اکٹھی ہو چکی ہے۔ الیکشن میں خاص طور پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آزاد امیدوار بھی خاصی بڑی تعداد میں میدان میں موجود ہوں گے اور یہی آزاد امیدوار منتخب ہو کر جس پارٹی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے اقتدار کا ہما اسی کے سرسج جائے گا۔
انتخابات میں سب سے بڑافریق عوام ہیں جن کے دم قدم سے انتخابی معرکے سجیں گے اور عوام کا موڈ ہی
۳
آئندہ انتخابات کا فیصلہ کرے گا۔ آج کی ابتر معاشی صورتحال میں عوام کسی لیڈر سے ہمدردی کو ہر گز تیار نظر نہیں آتے اور ان کا موڈ انتہائی جارحانہ ہے۔ اشرافیہ کے اللے تللوں کی جو خبریں گردش کر رہی ہیں عوام اس پر سیخ پا ہیں اور مزید کسی قربانی یا سبز باغ کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ عوام اپنے
سابقہ حکمرانوں کی جانب سے اقتدار کی مسند سنبھالنے کے بعد ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوؤں سے اکتا چکے ہیں اور کسی ایسے حکمران کو قبول کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہیں جو عوام سے تو قربانی
مانگے مگر خود حکمران طبقہ چھریاں تیز کر کے معمول کی آسودہ زندگی بسر کرتا رہے اورانہیں ایثار و قربانی، برداشت اور صبر کی تلقین کرتا رہے۔ پاکستان کے جتنے بھی مسئلے ہیں وہ سب انہی حکمرانوں کے پیدا کر دہ ہیں اور ان مسائل کو پیدا کرنے میں باہر سے کسی نے کوئی حصہ نہیں لیا ہے۔ بیرونی قرضے ہم پر زبردستی نہیں ٹھونسے گئے بلکہ بقول شاعر”دیوانے نے خود اپنی زنجیر بنائی ہے“۔ہم اس سلسلے میں کسی کو مورود الزام نہیں ٹھہرا سکتے ہماری اشرافیہ نے خود ہی ہمیں بھوک و افلاک سے دوچار کیا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جو حکومتیں عوام کے ووٹوں کی بجائے طاقتور ور لوگوں کی آشیر باد سے قائم ہوتی ہیں وہ حکومتیں کبھی عوامی فلاح کے کام نہیں کر سکتیں۔ ان کی طاقت اور اقتدار کے سر چشمے عوام نہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کے اشرافی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مفادات مشترک ہوتے ہیں اور وہ ان مشترکہ مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ عوام اقتدار میں لاتے ہیں اور نہ عوام میں اتنی سکت ہوتی ہے کہ وہ ان کو اقتدار سے اتار سکیں۔ البتہ جب عوام کو الیکشن میں موقع مل جاتا ہے تو وہ ووٹ کی طاقت سے اپنا غصہ ضرور اتارتے ہیں۔ عوام الیکشن کے لئے تیار ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ تو بے چینی سے الیکشن کے منتظر ہیں عوام کی نبض یہ بتا رہی ہے کہ وہ یہ فیصلہ بھی کر چکے ہیں کہ اس مرتبہ وہ کسی ایسے لیڈر کے جھانسوں میں نہیں آئیں گے جو ان کو سہانے مستقبل کے خواب
۴
دکھا کر ان کو بے وقوف بنا کر اقتدار کی مسند پر بیٹھ جائے بلکہ عوام ایسے حکمران کی تلاش میں ہیں جو ان کی
تکالیف اور مشکلات کا ازالہ کرے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ عوام دوست حکمران ہم عوام کے نصیب میں نہیں ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button