کپاس کی فصل پر سفید مکھی کے حملے اور اس کے تدارک کے اقدامات !!
کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے اور سوت پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے پاکستان کے تقریبا 13 لاکھ کسان چھ ملین ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کرتے ہیں اور کپاس ملک کا 15 فیصد رقبہ کاشت کی جاتی ہے
بر صغیر پاک و ہند میں کپاس کی فصل کی کاشت کی تاریخ پانچ ہزار قبل مسیح پرانی ہے وادی سندھ میں کپاس کی فصل کو سندھو کے نام سے پکارا جاتا تھا اور پاکستان کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے اور سوت پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے پاکستان کے تقریبا 13 لاکھ کسان چھ ملین ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کرتے ہیں اور کپاس ملک کا 15 فیصد رقبہ کاشت کی جاتی ہے کپاس کی فصل کا ملک کی جی ڈی پی میں اشاریہ8 فیصد حصہ ہے زر مبادلہ میں 51 فیصد حصہ ہء قیام پاکستان کے بعد کپاس کی فصل کی کاشت میں نمایاں اضافہ ہوا لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے وجہ سے گزشتہ چار دہائی میں فصل کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے جو کہ کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اس سال فصل ربیع کے آغاز پر موسمی حالات بہتر ہونے کی بناء پر کاشت کار کسان اور دیگر زرعی ماہرین کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ اضافے کی توقع کر رہے تھے جبکہ سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کی ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ سال کاٹن ائیر 24-2023ء کے لیے کپاس کا پیداواری ہدف مقرر کر کیا گیا تھا،مجموعی ہدف ایک کروڑ 27 لاکھ اور 70 ہزار گانٹھیں رکھا گیا ہے کاٹن ائیر 2023-24ء کے لیے کپاس کا پیداواری ہدف مقرر کیا گیا تھا،جس میں پنجاب کے لیے 83 لاکھ اور36ہزار، سندھ کے لئے 40 لاکھ، بلوچستان کے لئے 4 لاکھ 30 ہزار اور خیبرپختون خواہ کے لئے 4 ہزار گانٹھوں کی پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
جبکہ کپاس کا زیر کاشت رقبہ کا کل ہدف 68 لاکھ 34ہزار ایکڑ مقرر کیا گیا، جس میں پنجاب کا 49لاکھ 86ہزار،سندھ کا 16لاکھ 59ہزار، اور خیبرپختونخواہ 5ہزار اور بلوچستان کا 1لاکھ 81ہزار ایکڑ رقبہ پر کپاس کاشت کا ھدف مقرر کیا گیا تھا کاٹن کمشنر ڈاکٹر زاہد محمود نے توقع ظاہر کی تھی کہ کہ انشاء اللہ 24-2023ء کا سال کپاس کی بہتری کا سال ہوگا اور وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ چاروں صوبائی حکومتوں کے متعلقہ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹس کے باہمی تعاون سے کپاس کا مقرر کردہ ہدف حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق سفید مکھی کے کپاس کی فصل پر حالیہ حملے سے قبل کاشتکار اور محکمہ زراعت کے اعلیٰ افسران رواں سال اب تک سازگار موسم رہنے کے پیش نظر اچھی فصل کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن سفید مکھی کے شدید حملے کی وجہ سے توقعات کے برعکس کپاس کی فی ایکڑ فصل کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے اور رواں سال بھی پیداواری ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ ماہرین نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کپاس کی فصل کے کاشت والے علاقوں میں درجہ حرارت میں اچانک اضافے کو سفید مکھی کے حملے کی وجہ قرار دیا۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع خصوصاََ بہاولپور، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے حملے سے سب سے زیادہ متاثر بتائے جاتے ہیں، منڈیوں اور جننگ فیکٹریوں میں روئی کی آمد میں بھی ریکارڈ کمی بتائی جا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر پاکستان میں زرعی پیداوار میں تقریبا 30 فیصد کمی آ چکی ہے واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان دنیا بھر میں پہلے 10 ممالک میں شامل ہے
ضلع راجن پور میں تقریباً تین لاکھ 70 ہزار ایکڑ رقبے پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی اور ابتدا میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ 50 من فی ایکڑ کپاس کی پیداوار حاصل ہوگی لیکن اب حالات دیگر گوں ہیں اور سفید مکھی اور دیگر فصلاتی بیماریوں کی وجہ سے ضلع بھر میں کپاس کی فصل شدید متاثر ہوئی ہے اور 10 سے 15 من فی ایکڑ کپاس کی پیداوار حاصل ہو رہی ہے جس سے کاشتکار کسانوں کے خرچے بھی پورے نہیں ہو رہے اور کاشتکار شدید پریشانی کا شکار ہیں بتایا جاتا ہے کہ کپاس کی فصل کی اگیتی کاشت سفید مکھی کے حملے سے کافی حد تک محفوظ رہی ہے اور پچھتی کاشت سفید مکھی کے حملے کا شکار ہے اور ہزاروں ایکڑ اراضی پر کاشت کپاس کی فصل تقریبا مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے کسان راھنما راؤ افسر خان کا کہنا ہے کہ دو نمبر اور ناقص زرعی ادویات اور محکمہ زراعت کے آفیسران کی غفلت اور لاپرواہی سے کیاس کی تیار فصل تباہ ہو رہی ہے ضلع بھر کے مختلف علاقوں حاجی پور ونگ بنگرا دھنگن بیٹرائیں نورپور ،ونگ، فاضل پور، رقبہ نبی شاہ، کوٹلہ احمد ،رکھ ڈائمہ شکارپور اور تحصیل روجہان کے مختلف علاقوں میں حالیہ کپاس کی تیار فصل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی کاشتکاروں کو لاکھوں روپے کے نقصان کا اندیشہ ہے گزشتہ کچھ عرصے سے دیگر مختلف وجوہات کی بنا پر سے کسان معاشی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے جنوبی پنجاب میں کپاس کی فصل کو سب سے بڑی نقد آور فصل کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نقد آور فصل اور زیادہ نفع بخش سمجھی جاتی ہے اسوقت کپاس پر رس چوسنے والے کیڑے عموماً اور خصوصاً سفید مکھی ، سبز تیلا اور ملی بگ کا حملہ شدت اختیار کر چکا ہے ،پتہ سیاہ ہونے لگے جسے ماہرین زراعت خوراک کی فیکٹری کا نام دیتے ہیں اس کے علاوہ روٹ فنگس تیزی سے بڑھنے لگا ہے جس سے تیار پودے سوکھنا شروع ہو چکے ہیں تین لاکھ 70 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت ہ کپاس کی فصل محکمہ زراعت کی عدم توجہی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی، سفید مکھی،سبز تیلے اور ملی بھگ جیسی خطرناک بیماریاں کپاس پر حملہ آور ہو چکیں ہیں، مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں آنے کے بعد کپاس کے پودے سیاہ ہو کر سوکھنا شروع ہو گئے ہیں راؤ افسر خان کا مزید کہنا تھا کہ محمکہ زراعت ذمہ داران اور افسران اگر روٹ پلان کے مطابق فیلڈ وزٹ کرتے اور پیسٹ سکاوٹنگ کر کے کسانوں اور کاشتکاروں مفید مشورے دیتے اور قبل از وقت منصوبہ بندی اور بہتر حکمت عملی بناتے تو ہماری تیار کپاس کی فصل برباد ہونے سے بچ سکتی تھی ان کا مزید کہنا تھا زراعت آفیسران وعملہ دفتروں اور فوٹو سیشن تک محدود ہوکر رہ گیا صرف چند فیلڈ میں اپنی ایکٹیوٹیز دکھا کر سب اچھے کی رپورٹ دیتے رہے جبکہ حقائق اسکے برعکس ہیں حالیہ دنوں میں حملہ آور ہونے والی بیماریاں سے کپاس کی فی ایکٹر اوسطا پیداوار کم ہو کر رہ گئی ہے سفید مکھی کے حملے کی وجہ سے توقعات کے برعکس کپاس کی فی ایکڑ فصل کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے اور رواں سال بھی پیداواری ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ماہرین نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کپاس کی فصل کے کاشت والے علاقوں میں درجہ حرارت میں اچانک اضافے کو سفید مکھی کے حملے کی وجہ قرار دیا۔بہاولپور، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے حملے سے سب سے زیادہ متاثر بتائے جاتے ہیں
سفید مکھی کے بڑے پیمانے پر حملے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے سیکریٹری زراعت اور دیگر اعلیٰ افسران کو متاثرہ علاقے کی جانب روانہ کیے جب کہ کیڑے مار ادویات کے اسپرے کے لیے فوج کے ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کی مدد بھی طلب کرلی گئی ، ذرائع کے مطابق فوج کی اعلیٰ قیادت نے کیڑوں سے متاثرہ کھیتوں میں اسپرے کے لیے ہیلی کاپٹر اور ڈرونز دینے کی درخواست پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے کہا کہ حملہ چند ہفتے قبل شروع ہوا اور پتے کالے ہونے سے فصل کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حملے سے نہ صرف کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار متاثر ہو گی بلکہ پیداوار کا معیار بھی متاثر ہو گا، اس صورتحال میں روئی کی درآمد میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑے گا۔احسان الحق نے محکمہ موسمیات کو وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایات پر کپاس کے کاشتکاروں کی محنت ضائع ہونے سے بچانے کے لئے محکمہ زراعت کپاس کے نقصان دہ کیڑوں خصوصاً سفید مکھی کے تدارک کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہا ہے۔ جبکہ محکمہ زراعت کے ترجمان کے مطابق
نقصان دہ کیڑوں کی تلفی کے لئے خصوصی مہم جاری ہے اور کپاس کی سرویلنس،نگرانی اور ضرررساں کیڑوں کے تدارک کے لئے خصوصی ٹیمیں پوری طرح متحرک ہیں۔ سیکرٹری زراعت پنجاب نے اس جاری مہم کے دوران کپاس کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے کپاس کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب میں گرم اور خشک موسم کے باعث بعض علاقوں میں کپاس کی سفید مکھی کا حملہ مشاہدہ میں آیا ہے جس کے تدارک کے لئے افواج ِ پاکستان کی تکنیکی معاونت سے ڈرونز اور ہیلی کاپٹر زکی مدد سے سپرے کیا جارہا ہے۔ترجمان نے بتایا کہ سفید مکھی سپرے کے دوران اردگرد کے کھیتوں میں پناہ لے لیتی ہے لہذٰا اس کے تدارک کے لئے کلسٹر / کمیونٹی سپرے کے علاوہ ڈرون ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جارہی ہے جس سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ رقبہ پر سپرے کیا جا سکتا ہے۔ کپاس کے علاقوں میں مفت سپرے کئے جا رہے ہیں اور ضرررساں کیڑوں کی تلفی کے لئے 1400ہائی سپرے مشینیں فراہم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب میں نہری پانی کی ترجیحاً فراہمی جاری ہے۔کاشتکاروں کی تکنیکی معاونت کے لئے پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم بھی جاری ہے۔ اس مہم کے دوران آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (آپٹما) کا معیاری زرعی ادویات کی خریداری کے لئے 5 کروڑ روپے کا تعاون بھی حاصل ہے۔ترجمان محکمہ زراعت پنجاب نے کہا کہ کپاس کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار کاشتکاروں کی خوشحالی اور ملکی معیشت کے استحکام کی ضامن ہے۔
کپاس کی فصل کے نقصان دہ کیڑوں کے تدارک کے لئے محکمہ زراعت پوری طرح چوکس ہے اور کاشتکاروں کے شانہ بشانہ شریک ہے۔موسمیاتی نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرایا جب کہ زراعت کا شعبہ گزشتہ کئی سالوں سے بروقت اور درست پیش گوئی کم ہونے کی وجہ سے مسئلے سے دوچار ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر میں محکمہ موسمیات کو بہت اپ گریڈ کیا گیا لیکن افسوس پاکستان میں محکمے کے آلات کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔
ضلع راجنپور کے علاقے حاجی پور میں کپاس کی فصل جدید ٹیکنالوجی ڈرون اور پاک افواج کے خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سپرے کیا گیا گزشتہ روز کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈاکٹر ناصر محمود بشیر کا ڈپٹی کمشنر راجن پور ڈاکٹر منصور احمد خان بلوچ کے ہمراہ حاجی پور کا دورہ کرتے ہوئے سپرے کے عمل کا جائزہ لیا۔کمشنر ڈی جی خان نے حاجی پور کے نزدیک کپاس کے پتوں کو چیک کیا۔اس موقع پر سفید مکھی کے کنٹرول کے لیے ڈرونز کی مدد سے کپاس کی فصل پر زرعی ادویات کا سپرے کیا گیا۔اس موقع پر کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈاکٹر ناصر محمود بشیر کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب کپاس کی پیداوار بڑھانے اور سفید مکھی سے بچاؤ کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔جن علاقوں میں سفید مکھی کا حملہ زیادہ ہے وہاں پر ڈرونز کی مدد سے سپرے کی جا رہی ہے۔ علاؤہ ازیں حکومت پنجاب کی ہدایت پر کپاس کی فصل کو سفید مکھی کے حملہ سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل پیسٹ وارننگ فقیر احمد،سابق ڈی جی زراعت و کنسلٹنٹ ڈاکٹر انجم علی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل محمد صفات اللہ،اسسٹنٹ کمشنر راجن پور محمد عامر جلبانی نے کوٹلہ نور محمد اور رکھ فاضل پور میں کپاس کی فصل پر ڈرونز کے ذریعے زرعی ادویات کا سپرے کرایا۔انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں مفت سپرے کیا جا رہا ہے۔ کاشتکاروں کو تکنیکی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔کپاس کی فصل کو سفید مکھی سے بچانے کے لیے ڈرونز کے ذریعے سپرے شروع کرا دی گئی ہے۔مزید تفصیلات کے مطابق ضلع راجن پور کی تمام نہروں میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ جبکہ حاجی پور میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے تقریباً ایک ہزار ایکڑ پر کاشت متاثرہ فصل کپاس پر سپرے بھی کیا گیا