مشرق وسطیٰ

کورونا وائرس: شمال مغربی لندن سے تعلق رکھنے والی رِیا لاکھانی کی کہانی

[ad_1]

رِیا لاکھانیتصویر کے کاپی رائٹ
Ria Lakhani

Image caption

وہ دن جب انھیں ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا

سانس لینا شاید سب سے زیادہ فطری عمل ہے۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ آپ کو یاد رکھنا ہو کہ سانس بھی لینا ہے۔

لیکن رِیا لاکھانی کو سانس لینا یاد رہتا ہے۔ شمال مغربی لندن کے ایک گھر میں کووڈ 19 کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہونے والی سیلز ایگزیکٹو ایسی کچھ چیزیں یاد رکھنا سیکھ رہی ہیں جن کے بارے میں ہمیں خیال بھی نہیں گزرتا۔

وہ کہتی ہے کہ ‘یہ انتہائی قدرتی عمل ہوا کرتا تھا لیکن اب مجھے یاد رکھنا ہے کہ سانس کیسے لینا اور کیسے چھوڑنا ہے۔‘

خود ساختہ تنہائی میں وہ اب بھی اپنے شوہر کو گلے نہیں لگا سکتیں یا اپنے بھائی اور بہن سے نہیں مل سکتیں۔ اور وہ ابھی بھی سانس لینے کی کوشش میں رات کو جاگ جاتی ہیں۔

ریا کو ہسپتال میں رہتے ہوئے ہی کوڈ 19 کے علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں جہاں انھیں آپریشن کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔ سات سال قبل انھیں نگلنے میں مشکل سے متعلق ایک ایسے مرض کی تشخیص ہوئی تھی جو کم پایا جاتا ہے اور وہ اکثر ٹھوس چیزوں کو اگل دیتی تھیں۔ ’اچالاسیا‘ نامی بیماری کا اعلاج سرجری تشخیص کیا گیا تھا جس کے بعد ممکنہ طور پر وہ چیزوں کو نگلنے کے قابل ہوسکتی تھیں۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی اس بیمار نے انھیں اپنی صحت کی دیکھ بھال کرنے میں خاص طور پر محتاط کردیا تھا۔

ہسپتال میں ان کا داخلہ معمول کی بات تھی۔ لیکن وہاں صحت یاب ہونے کے دوران انھیں سانس لینے میں پریشانی ہونے لگی۔ اس کے بعد انھیں بخار ہونے لگا۔

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟

کیا کورونا وائرس کی وبا کے دوران سیکس کرنا محفوظ ہے؟

سب لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ سرجری کا اثر ہے لیکن احتیاط کے طور پر ان کے سلائیوا کا نمونہ لے کر کووڈ ٹیسٹ کیا گيا۔ ریا اپنے تجربات کو فیس بک پر ڈالنے کے لیے بے چین تھیں اور فون پر نوٹس لینے لگیں۔

انھوں نے لکھا ‘اب میرے کمرے کو گھیر لیا گیا ہے اور وارڈ کا باقی حصہ خالی کرا لیا گیا۔ میں نے ایک پورا وارڈ بند کرا دیا! میں اپنے گھر کے لوگوں کو بہت مس کر رہی ہوں۔ کووڈ 19 کے ٹیسٹ نے مجھے اتنا محدود کر دیا کہ مجھے شرمندگی ہونے لگی کہ میرا ہی سلائیوا اس قدر جلدی جلدی کیوں لیا جا رہا ہے جبکہ دوسرے بہت سے ایسے تھے جن میں اس مرض کا زیادہ خدشہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے وہ مرض نہیں۔ میں نے تمام گائیڈ لائنز کی پابندی کی۔’

اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ریا کا وائرس ٹیسٹ مثبت تھا۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Ria Lakhani

Image caption

ریا کو ہسپتال میں آکسیجن پر بھی رکھا گیا

اور جب ان کی حالت خراب ہوتی گئی اور انھیں مزید آکسیجن کی ضرورت پڑنے لگی تو انھیں لندن کے ایک بڑے کووڈ 19 کے علاج و معالجے والے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔

ریا کو ان ڈاکٹروں کے چہرے پھر تشویش کے نمایاں آثار یاد ہیں جو دو دن اور ایک رات تک ان کی نگرانی کر رہے تھے۔ جبکہ ریا کا جسم اس مرض سے لڑنے کی شدید کوشش کر رہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان پر جو گزری اس نے انھیں پوری طرح سے بدل دیا۔

انھوں نے فیس بک پر لکھا ‘چیزیں بد سے بدتر ہوتی گئیں۔ سانس لینا بھی اتنا ہی مشکل ہو گیا جیسے پہاڑ پر چڑھنا۔ میں اپنا علاج کرنے والے ہیروز کے چہروں پر چھائی تشویش دیکھ سکتی تھی۔ زیادہ تر ڈاکٹر ایک دوسرے کو دیکھتے اور بڑبڑاتے نظر آتے۔ ہر لمحے مشاہدات جاری تھے اور لگاتار جانچ ہو رہی تھی۔ خوفناک، غیر یقینی صورتحال، بد نظمی، بہت سارے احساسات، میرے دماغ میں بہت سارے خیالات اور ایسے سوالات تھے جن کے جوابات سننے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔’

بی بی سی سے اپنے گھر سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ‘میں تقریباً مر چکی تھی۔ ایک ایسا وقت آیا جب میں نے اپنے اہل خانہ کو مشکل پیغامات لکھنے شروع کر دیے۔ میں تقریباً مر چکی تھی لیکن اب میں زندہ ہوں۔ اس کے بعد زندگی کیسے معمول پر آسکتی ہے؟’

ریا پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا انھیں نمونیہ ہوا تھا یا نہیں لیکن اب جبکہ وہ اپنے گھر کے بستر پر صحتیاب ہو رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے پھیپھڑے سے ‘تھرتہراہٹ کی آواز’ سنائی دیتی ہے۔

ان کی صحت آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔ ہسپتال میں وہ درد کی وجہ سے مشکل سے ہل سکتی تھیں اس لیے آکسیجن کے ساتھ ہسپتال میں انھیں مورفین دی جا رہی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ بولنا بھی مشکل تھا۔

’ایک جملہ بولنا ایک میراتھن میں دوڑنے جیسا تھا۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Ria Lakhani

Image caption

گھر میں انھیں اپنے شوہر سے فاصلہ برقرار رکھنا پڑتا ہے اور ان کو کھانسی کے دورے پڑے ہی۔

لیکن اس سب کے درمیان امید کی کرن بھی تھی۔ انھوں نے ساتھ والے بستر میں ایک 96 سالہ بہری آئرس نامی عورت کے ساتھ تعلق قائم کر لیا اور عمر کے فرق کے باوجود وہ ایک دوسرے کو تلاش کرنے لگیں۔

وہ کہتی ہیں ‘مجھے ان کی اتنی ہی ضرورت تھی جتنی ان کو میری ضرورت تھی۔‘

اور انھیں طبی عملے کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں امید نظر آئی جنھیں وہ ‘سچے ہیرو’ کہتی ہیں۔

’یہ چھوٹی جیت تھی جیسے کہ نرسیں اس بات کا خیال رکھتیں کہ آئرس کو گرم چائے مسلسل ملتی رہے اور ان کے لیے کیک کا ایک اضافی ٹکڑا لانا، میرے چہرے پر ہنسی آجاتی تھی۔’

گھر میں انھیں اپنے شوہر سے فاصلہ برقرار رکھنا پڑتا ہے اور ان کو کھانسی کے دورے پڑے ہیں۔

لیکن انھیں اس بات کا اطمینان ہے کہ وہ وائرس سے لڑنے میں کامیاب رہی ہیں خاص کر جب اس بات پر غور کرتی ہیں کہ اس سے کتنے افراد کی موت ہوئی ہے۔

‘اس سفر میں وہ مقام بھی آیا جب مجھے یہ یقین نہیں تھا کہ پھر کبھی میں دن کی روشنی دیکھوں گی۔ کچھ بھی یقینی نہیں تھا۔ اگرچہ میں ہمیشہ سے جانتی ہوں کہ میں اپنے خاندان سے کتنا پیار کرتی ہوں لیکن ان لمحوں میں میں نے سیکھا کہ مجھے ان کی کس قدر ضرورت ہے۔ میں ہسپتال سے نکلنے کے اس لمحے کو بیان نہیں کر سکتی، اب میں کبھی بھی کسی چیز کی بےقدری نہیں کروں گی۔‘

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button