غیر ملکی تاریکین وطن ۔۔ پاکستان کے لیے ایک چیلنج!….پیر مشتاق رضوی
ھمارے برادر ملک افغانستان جس کی سرحدیں پاکستان کے علاوہ 4 مسلم ممالک سے ملتی ہیں لیکن کسی بھی ملک ایران ازبکستان تاجکستان ترکمانستان کسی نے بھی افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دی
وزیر داخلہ کا دو ٹوک پیغام ہے کہ یکم نومبر 2023ء کے بعد غیر قانونی غیر ملکیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ھوگا حکومت کا ایک دن بھی مزید مہلت نہ دینے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے کہ انکے حمایتوں اور سہولت کاروں کی خلاف بھی ایکشن ھوگا جس غیر قانونی غیر ملکی فیملی کو ملک سے بدر کرنا تھا ان فیملی کو اپنے ساتھ صرف 50000 نقد کیش لے جانے کی اجازت ھوگی ھمارے برادر ملک افغانستان جس کی سرحدیں پاکستان کے علاوہ 4 مسلم ممالک سے ملتی ہیں لیکن کسی بھی ملک ایران ازبکستان تاجکستان ترکمانستان کسی نے بھی افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دی۔ جبکہ پاکستان نے 55 سالوں سے ان کو پناہ دی ان کا بوجھ برداشت کیا ۔آب بھی تقریبا 80 لاکھ رجسٹرڈ افغانی پاکستان میں ہیں اور جو غیر قانونی طور پر ہیں ان کا شمار ہی نہیں ہے لیکن یہ آج بھی پاکستان کو اپنا دشمن سمجتھے ہیں ایک میچ جیتنے کے بعد اپنا آپ دیکھ رہے ہیں ۔بلا شبہ افغانستان نے اچھی کرکٹ کھیلی ہے لیکن وه میچ انگلینڈ سے بھی جیتے ہیں مگر ڈانس اور انڈین کے ساتھ گراؤنڈ کے چکر صرف پاکستان سے جیتنے کے بعد ہی کیوں ؟ تاریخ گواہ ہے کہ برادر ملک افغانستان کے لیے پاکستان نے کتنی قربانیاں دی ہیں کہ 80 کی دہائی میں روس کی جارحیت کو روکنے کے لیے پاکستان نے افغان مجاھدین کے ساتھ ملکر ایک طویل صبر آزما جنگ لڑی جس میں پاکستان ارمی کی قیادت کو ایک طیارہ حادثے کی سازش میں شہید کیا گیا اور ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی شہید ہوئے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور ایک لاکھ سے زیادہ پاکستان کے معصوم شہری بھی شہید ہوئے اس کے علاوہ اس جنگ کے بعد پاکستان کو برسوں تک دہشت گردی کا میدان جنگ بنا دیا گیا اور پاکستان کی معاشی استحکام کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور پاکستان میں بدامنی کا دور دور تھا لیکن پاکستان نے افغانستان کا ساتھ نہ چھوڑا اج اگر افغانستان میں طالبان کی یا افغانیوں کی اپنی حکومت ہے وہ بھی پاکستان کی مرھون منت ہے کیونکہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد پاکستان کی موثر حکمت عملی کی وجہ سے افغانیوں کی عبوری حکومت قائم ہوئی لیکن افغانستان کے شہری پاکستان کے احسان مند ہونے کی بجائے ہر معاملے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں حالیہ دور میں بھی جب پاکستان کی معشیت دیگرگوں تھی اور پاکستان ڈیفالٹ ہو رہا تھا پاکستان کی داخلی اور خارجی سلامتی کو بھی شدید خطرہ لاحق تھا لیکن افغانیوں نے پاکستان کی معاشی سنگین صورتحال کی پرواہ کیے بغیر ڈالرز کے علاوہ اٹا چینی کھاد سیمنٹ اور دیگر ضرورت ایشیا کے بڑے پیمانے پر سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی جس کی وجہ سے پاکستان میں معاشی بحران پیدا ہو گیا اس کے علاوہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر ائے روز افغانستان سے حملے کرتے ہیں اور پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں سے علیہ السلام تھی کہ سنگین ترین مسائل پیدا ہو رہے تھے پاکستان میں غیر ملکی افراد اور خصوصا غیر قانونی مقیم پذیر افغانی پاکستان کے لیے شدید تر معاشی مسائل کا باعث بنے ہوئے تھے بلکہ امن و امان کے حوالے سے بھی ان کا قیام پاکستان کے لیے ایک چیلنج تھا کیونکہ پاکستان میں ہونے والی ہے دہشت گرد اور تخریبی کاریوں کاروائیوں میں غیر ملکی افراد ملوث ہونے کے ثبوت اور شواہد سامنے انے پر پاکستان کی حکومت نے اور خصوصا پاکستان کی سلامتی کے ضامن اداروں نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر غیر ملکیوں کے انخلاء کا فیصلہ کیا
ایک رپورٹ کے مطابق ایران سے 50 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس لوٹ گئے ایران میں مقیم 50 ہزار سے زائد افغان مہاجرین گزشتہ ماہ اپنے وطن افغانستان واپس لوٹ چکے ہیں۔افغان سرکاری خبر رساں ایجنسی بختار کے مطابق گزشتہ مہینے میں کل 57 ہزار 382افغان مہاجرین پڑوسی ملک ایران میں برسوں قیام کے بعد وطن واپس آئے ہیں۔چند روز قبل ہمسایہ ملک پاکستان سے بھی 5ہزار1سوسے زائد افغان مہاجرین وطن واپس آچکے ہیں۔ھ 25 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں رہ رہے ہیں اور اتنی ہی تعداد ایران میں مقیم ہےجو گزشتہ چار دہائیوں کے دوران افغانستان میں غیر ملکی حملوں اور تنازعات سے بچاو کے لیے فرار ہو کران ہمسایہ ممالک میں مقیم ہیں۔اطلاعات کے مطابق گزشتہ سال پاکستان اور ایران سے 2 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس آئے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں افغان مہاجرین چارٹر طیارے کے ذریعے برطانیہ بھی روانہ ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ روز نگراں وزیراعظم سے امریکی سفیر کی ملاقات، افغان مہاجرین کی امریکا میں آباد کاری پر بات چیت کی اس حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے۔ترجمان امریکی سفارت خانہ کے مطابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی ملاقات میں آئندہ عام انتخابات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے حوالے سے ترجمان امریکی سفارت خانہ نے بتایا کہ پاکستانی وزیر اعظم اور امریکی سفیر کے درمیان افغان مہاجرین کی امریکا میں آباد کاری پر بات چیت کی گئی۔
پاکستان سے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کو ان کے ملک بدر کرنے کی سرکاری پالیسی پر ملک کی دینی سیاسی جماعتوں نے اپنی ایک الگ پوزیشن اختیار ہوئی ہے کیونکہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں کو افغان مہاجرین کی موجودگی سے ایک بڑی سیاسی سپورٹ ملتی ہے اور ان سیاسی دینی جماعتوں کے مفادات افغان مہاجرین سے بھی وابستہ ہیں افغان مہاجرین کی واپسی کے مسئلے حوالے سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ میں تحریک جمع کردی ہے کہ معزز ایوان افغان مہاجرین کی 31 اکتوبر 2023ء کے بعد زبردستی واپسی کے سنگین مسئلہ کوزیر بحث لائے۔ کیونکہ31 اکتوبر کے بعد افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر زبر دستی واپسی غیرقانونی، غیر دستوری اور غیر انسانی ہے۔
یہ سہ فریقی معاہدے، پاکستان، افغانستان اور UNHCR کے خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار کے فیصلے میں قراردیا ہے کہ پاکستان میں موجود مہاجرین کو وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہوں گے جو شہریان پاکستان کو حاصل ہیں۔ اگرچہ ان کے ساتھ دستاویزات اور اجازت نامہ نہ بھی ہو۔جبکہ یکم فروری 2017 ء 20جون 2023ء کے وفاقی کابینہ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔
ایک نگراں حکومت اور ایک نام نہاد اپیکس کمیٹی کو اس سٹریٹیجک فیصلے کا اختیار ہی سرے سے نہیں ہے۔
تارکین وطن کے اس سنگین ترین مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت پاکستان کو سفارتی اور سیاسی سطح پر مزید اقدامات اور موثر رابطہ کاری کرنی چاہیےاور پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی مکمل طور پر اعتماد لینا چاہیے خصوصا افغانستان ہمارا ایک برادر ملک ہے اس حوالے سے شدید خدشات اور تحفظات لاحق ہیں جن کو دور کرنے کے لیے سفارتی سطح پر افغان عبوری حکومت وہ باور کرسیا جائے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت کوئی بھی غیر ملکی دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم نہیں ہو سکتا اور افغانستان کے شہری ہمارے بھائی ہیں اگر وہ پاکستان انا چاہیں تو وہ ایمیگریشن کے قانونی تقاضے پورے کریں اور پاکستان سے تجارتی روابط کو مزید بہتر بنائیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو خوشگوار بنایا جاسکے