حیرت ہے مجھ کو اپنے چمن کے سبھاؤ پر ۔۔۔ طیبہ بخاری
اس میں کچھ غلط نہیں کہ ہمارے ہاں بے حسی رواج بن چکی ہے۔۔۔ہر مسئلے کا حل سیاست میں ڈھونڈا جا رہا ہے
احسان دانش نے شاید انہیں حالات کیلئے کہا تھا کہ
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
موسم ہے سرد مہر لہو ہے جماؤ پر
چوپال چپ ہے بھیڑ لگی ہے الاؤ پر
سب چاندنی سے خوش ہیں کسی کو خبر نہیں
پھاہا ہے ماہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر
اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر
سورج کے سامنے ہیں نئے دن کے مرحلے
اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر
یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے
بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر
موسم سے ساز غیرت گلشن سے بے نیاز
حیرت ہے مجھ کو اپنے چمن کے سبھاؤ پر
اس میں کچھ غلط نہیں کہ ہمارے ہاں بے حسی رواج بن چکی ہے۔۔۔ہر مسئلے کا حل سیاست میں ڈھونڈا جا رہا ہے
صرف سیاستدان ہی لاڈلے کیوں۔۔۔؟
ان کی باری کب ختم ہو گی۔۔۔عوام لاڈلے کب بنیں گے۔۔؟
صرف سیاستدانوں کیلئے ہی”فیور“ یا ”لیول پلیئنگ فیلڈ“ کیوں۔۔؟عام آدمی کیلئے یہ دونوں سہولتیں کیوں نہیں۔۔۔؟
غریب اور مفلوک الحال لوگوں سے اتنی دشمنی کیوں۔۔؟کیا انصاف طلب کرنا، اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایوانوں کے دروازے 7دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی متوسط اور غریب طبقے کیلئے بند ہیں۔
مزید کب تک بند رہیں گے؟کیوں نہیں کھلتے یہ دروازے۔۔۔؟
صرف معیشت کیساتھ کھلواڑکرنے والوں کا نہیں، عوام کا اعتماد مجروح کرنے اور ان سے بار بار جھوٹ بولنے والوں کا بھی محاسبہ کیوں نہیں۔۔۔؟عوام کو بے روزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں دھکیلنے والوں کامحاسبہ کیوں نہیں۔۔۔؟
نظام تعلیم، نظام انصاف اور نظام صحت۔۔۔ان تینوں نظاموں کو تباہ اور مہنگا کرنے والوں کا محاسبہکیوں نہیں۔۔۔؟
سستی روٹی اب تک کیوں نہیں مل پا رہی۔۔۔قرض کیوں بڑھتے جا رہے ہیں۔۔۔ کون ہیں ذمہ دار۔۔۔؟
کہا جا رہا ہے کہ3بار وزیر اعظم رہنے والے کو ”رینگ رینگ کر انصاف مل رہا ہے“ ہے تو عام آدمی کو عدالتوں سے کیا ملتا ہو گا؟ خود ہی اندازہ لگا لیں۔
سیاستدان، انتظامیہ، مقننہ سب مظلوم۔۔۔ظالم کون ہیں؟کون کرے گاظالموں کی نشاندہی۔۔۔؟
ملک کے اندر تقسیم اور نفرت اس قدر بڑھ چکی کہ آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات”بہتر“ نہیں، ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کب اور کیسے۔۔۔؟ بہت دور کی بات لگتی ہے
زیاہد تفصیل اور گہرائی میں جائے بناء صرف 2023ء میں مظلوم عوام اور قائد کے پاکستان پر کیا گزری مختصراً تذکرہ کرتے چلتے ہیں
2023ء کے دوران ایئر پورٹس سیکیورٹی فورس نے1251 ملین روپے کی منی لانڈرنگ اور 138 کلو سونے کی سمگلنگ ناکام بنائی
2023ء میں ملک بھر میں 18736 انٹیلی جنس آپریشنز میں 566 دہشت گرد مارے گئے 5161 کو گرفتار کیا گیا
پاک فوج کے 260 افسران اور جوانوں سمیت ایک ہزار سے زائد افراد نے جام شہادت نوش کیا
بلوچستان میں 15063 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے اور 109 دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا
خیبر پختونخوامیں 1942 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے 447 دہشت گردمارے گئے
پنجاب میں 190، گلگت بلتستان میں 14 اور سندھ میں 1987 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے
10 دہشت گردوں کو سندھ میں جہنم واصل کیا گیا۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں افواج پاکستان، دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور عوام نے بے لوث قربانیاں دیں۔
سال 2023 سپریم کورٹ میں اہم مقدمات کے فیصلوں کے حوالے سے کافی اہمیت کا سال رہا، عدالت عظمیٰ کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا فیصلہ جاری کیا گیا جس پر عمل درآمد نہ ہو سکا، عدلیہ تقسیم رہی، اس کے علاوہ ریاست کے 3 اہم ستونوں عدلیہ، ایگزیکٹو اور پارلیمان کے درمیان تناؤ کی صورتحال برقرار رہی۔ سپریم کورٹ پر بینچ فکسنگ کے الزامات لگتے رہے۔
2023ء میں پاکستان میں مہنگائی کا 47 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں پچھلے 2 ماہ میں مہنگائی 31 فی صد رہی جو اگست میں 27 فی صد تھی، جب کہ مہنگائی سالانہ بنیاد پر 38.4 فی صد ہو گئی۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 50 سے 70 فی صد اضافہ سالانہ بنیاد پر ہو رہا ہے، اور غضب یہ ہے کہ یہ اضافہ ماہانہ بنیاد پر ہو رہا ہے، ماہرین نے خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس میں آنیوالے مہینوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، اور آئی ایم ایف کے مطالبے پر ٹیکسز میں اضافے سے مزید مہنگائی کا طوفان آئے گا۔
مسلسل بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے افراد خاندانوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق دنیا بھر میں اشیائے خوردو نوش کی بڑھتی قیمتیں اربوں غریب افراد کو مزید غریبی کی گہرائیوں میں دھکیل دیں گی۔ پاکستان میں بھی اس مہنگائی، غذائی بحران، حکومتی نا اہلی، کرپشن اور اشرافیہ کی عیاشیوں نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین کر بھوک اور افلاس کا شکار بنا دیا ہے، جس کی بنا ء پر عوام میں بد دلی، مایوسی، انتشار اور خود کشی جیسے عوامل پیدا ہو رہے ہیں۔
برطانیہ کے جریدے فنانشنل ٹائمز نے اپنے اداریے میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے، اگر مثبت اقدامات نہ کیے گئے تو سری لنکا سے بدتر صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان مجموعی طور پر 600 کھرب روپے کا مقروض ہے، اور ان قرضوں کی ری شیڈولنگ میں شامل شرائط مہنگائی میں روز مرہ کی بنیاد پر اضافہ کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک فی صد اشرافیہ نے 2018-19 ء میں 9 فی صد معیشت کا 314 بلین ڈالرز حاصل کیا تھا، اس کے مقابلے میں ایک فی صد غریب نے صرف صفر اعشاریہ پندرہ فی صد حصہ حاصل کیا، پاکستان کا ایک فی صد طبقہ اشرافیہ ملک کی 50 فی صد معیشت کا مالک ہے۔
2018 ء میں پاکستان کی 31.3 فی صد آبادی (تقریباً 7 کروڑ افراد) غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور تھے، 2020 ء میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فی صد کے قریب پہنچ گئی، اور 2021 میں کورونا وباء اور 2022 میں سیلاب، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے یہ تعداد 50 فی صد تک ہونے کا خدشہ ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی سے صرف ایک سال ہی میں 20 لاکھ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں، اور 40 فی صد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ نے 2022 ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے معاشی شرح نمو کا 3.5 فی صد سے ہدف کم کر کے 2.3 فی صد کر دیا، موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر شرح نمو میں مزید کمی کا امکان ہے۔
پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے پیش نظر جرمن گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں پاکستان میں شدید غذائی قلت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ 2010 ء کے سیلاب سے 9 سے 10 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔ موجودہ سیلاب کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 40 ارب ڈالر سے زائد بتایا جا رہا ہے۔
سال 2023 ء میں پاکستانی ملکی تاریخ کا مہنگا پیٹرول، ڈیزل خریدنے پر مجبور رہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پاکستانی ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا پیٹرول اور ڈیزل خریدنے پر مجبور رہے۔آئی ایم ایف شرائط کے تحت لیوی کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پیٹرول اور ڈیزل کے فی لیٹر پر 60 روپے لیوی وصول کی گئی۔رواں سال پیٹرولیم مصنوعات فی لیٹر 116.58 روپے تک مہنگی ہوئیں جبکہ ان پر لیوی میں فی لیٹر 30 روپے تک اضافہ کیا گیا۔ ڈیزل 30 اور پیٹرول پر فی لیٹر لیوی میں 10 روپے کا اضافہ کیا گیا۔
سال 2023 ء کے آغاز پر فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 214 روپے 80 پیسے تھی۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 16 ستمبر کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی تھیں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت سب سے زیادہ 331 روپے 38 پیسے ہوگئی تھی۔ فی لیٹر ڈیزل کی قیمت 16 ستمبر کو سب سے زیادہ 329 روپے 18 پیسے ہوگئی تھی۔یکم اکتوبر 2023 ء سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان شروع ہوا۔
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے یہ الفاظ کہ”معاشی حالات کی بہتری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا منشور اب تک نظر نہیں آیا، 65 برس میں جتنا قرضہ لیا آخری 10 سال میں اسے دگنا کردیا۔“ثابت کرتے ہیں کہ ”بھیڑ لگی ہے الاؤ پر“۔۔۔اس سب کے باوجود اقتدار کا کھیل جاری ہے۔۔۔طاقت کا کھیل جاری ہے۔۔۔
ہو سکے تو جواب دیجیے کب رکے گا یہ بھیانک کھیل۔۔۔۔کب رکے گی مہنگائی۔۔۔کب رکیں گی خودکشیاں۔۔۔
2023ء تو گزر ہی گیا۔۔۔پر خود فریبیوں کا سفر طے ہو رہا ہے۔۔۔۔اور ناجانے کب تک ہوتا رہے گا۔؟