پاکستان کا بدترین معاشی نظام اور اشرافیہ کا شرمناک کردار !…… پیرمشتاق رضوی
پاکستان موسمی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے اور قدرتی آفات کے ممکنہ تباہ اثرات پہلے ہی ظاہر ہوچکے ہیں
پاکستان کا معاشی ماڈل ناکارہ ہو چکا ہے ترقی کے ثمرات اشرافیہ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں غربت میں کمی کے بارے پیش رفت واپس الٹنا شروع ہو گئی ہے اس بات پر وسیع اتفاق رائے ہے کہ ایسی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا جن سے ترقی کی رفتار متاثر ہوئی اس حوالے سے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان موسمی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے اور قدرتی آفات کے ممکنہ تباہ اثرات پہلے ہی ظاہر ہوچکے ہیں.
پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ 860 کھرب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور ہر پاکستانی تین لاکھ روپے کا مقروض ہے جبکہ 22 فیصد شرح سود نے مہنگائی بے لگام ہو چکی ہے اور مہنگائی کی شرح 42 فیصد سے بھی زائد ہو چکی ہے پاکستان کی چھ کروڑ سے زائد ابادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے
2018ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی ملک میں گورنمنٹ تھی اور آصف زرداری پاکستان کے صدر بنے ان کے دور حکومت میں پاکستان کی ذمہ واجب الادا غیر ملکی قرضہ 45 ارب ڈالر تھا اور پی پی کی حکومت کے خاتمے تک یہ قرضہ 61 ارب ڈالر تک جا پہنچا پانچ سال بعد میاں محمد نواز شریف کی تیسری حکومت کے اختتام تک جو کہ 2018ء میں یہ قرضہ 95 ارب ڈالر تک جا پہنچا اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 16 ارب ڈالر غیر ملکی قرض لیا اور میاں نواز شریف کی گورنمنٹ نے 34 ارب ڈالر غیر ملکی قرضہ لیا
سٹیٹ بینک کے مطابق ستمبر 2023ء کے اخر تک ملک پر 127 ارب ڈالر قرضہ تھا 2018ء میں جب عمران نیازی کی حکومت آئی اس وقت ملک پر 24 ہزار ارب روپے کا قرضہ تھا اور عمران نیازی کی حکومت میں چار سالوں میں یہ قرضہ 49 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح ستمبر 2023ء کے اختتام تک پاکستان پر مجموعی قرضے کا حجم 60 ہزار 829ارب تک جا پہنچا ہے پاکستان نے 2023ء میں صرف سود کی مد میں چار ارب چار کروڑ ڈالر ادا کیے اور پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں 77 فیصد کمی ائی جبکہ شرع نمو 6.1 فیصد سے بھی کم رہی پاکستان ایک دہائی میں تیسری بار سب سے کم فی کس آمدنی والا ملک بنا 2020ء میں فی کس آمدنی 1766ڈالر سے کم ہو کر 1561 ڈالر ہوئی اس طرح 198 ڈالر فی کس آمدنی میں کمی ہوئی جس سے غربت میں اضافہ ہوا اس کی وجہ سے خط غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں بہت بڑا اضافہ ہوا
ایک طرف عام آدمی کی آمدنی میں انتہائی کمی لیکن دوسری طرف اشرفیہ کے مال و دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اس کی ایک مثال سابق وزیراعظم کے اثاثوں میں سالانہ پانچ کروڑ روپے کا اضافہ بتایا جاتا ہے سابق وزیراعظم نے 2018ء میں تین کروڑ 86لاکھ روپے کےاپنے اثاثے ظاہر کیے اور ان کے اثاثوں میں پانچ سال کے دوران 27 کروڑ 72 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ملک میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے پاکستان میں اشرافیہ اور مافیا ایک طرف عوام کا خون چوس رہے ہیں اور دوسری طرف قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں آٹا،شوگر ،ڈرگ اور کھاد مافیاز بے لگام ہیں گو کہ کہا جاتا ہے کہ ڈالرز کی قیمت پر کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے اور ملکی روپیہ میں استحکام آیا ہے لیکن اس کا ریلیف ابھی تک غریب ادمی کو نہیں ملا ہر دوسرا شخص بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے بارے پریشانی کا شکار ہے بجلی کی چوری اور لائن لاسز 35 سے 40 فیصد تک بتائی جاتی ہے پاور سیکٹر میں پاور کمپنیاں 500 ارب کی سرمایہ کاری سے 4900 ارب کماتی ہیں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 800 ارب روپے کی مفت بجلی کی سہولت اشرافیہ کو دی جاتی ہے جبکہ بجلی کی چوری اور لائن لاسز کا سارا بوجھ غریب صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے کرپشن نے بھی ریکارڈ توڑ دیے ہیں ایک اندازے کے مطابق ملک میں 15 سے 20 ارب روپے روزانہ کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں جبکہ 500 ارب روپے کی ٹیکسز کی سالانہ چوری کی جا رہی ہے ملک میں غریب آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے اور خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے عام شہری بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہو چکا ہے
اج پاکستان میں 200 کے قریب امیر ترین خاندانوں کا ہمارے ذرائع پیداوار دولت سیاست اور فیصلہ ساز اداروں یعنی اسمبلیوں پر قبضہ ہے ٹیکس کس سے لینا کس پر خرچ کرنا ہے اس کا فیصلہ بھی یہی چند خاندان کرتے ہیں ھمارے غریبوں سے جبراً ٹیکس لیا جاتا ہے اور امیروں کی عیاشی پر خرچ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے ہمارے ملک میں سماجی انصاف ناپید ہو چکا ہے اور وسیع پیمانے پر استحصال بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے جاری و ساری ہے اشرافیہ کی اجارہ داری اور سماجی ناانصافی نہ صرف ہمارے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور یوں کمزور طبقہ کا استحصال بدستور جاری ہے بدعنوان مفاد پرست اشرافیہ بے شرمی اور پوری ڈھٹائی سے اپنی لوٹ مار کو دل فریب نعروں جیسے جمہوریت کی بقا پارلیمنٹ کی بالادستی ازاد عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کی آڑ میں جاری رکھے ہوئے ہیں ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کی 33 خاندانوں کی ملک کے مالیتی اداروں پر اجارہ داری ہے جس میں کاروباری طبقہ سیاستدان ریٹائرڈ سویلین اور اسٹیبلشمنٹ کے سابق افیسر شامل ہیں اس کے علاوہ رپورٹ میں بنا کسی ٹھوس منصوبہ بندی کیے جانے والے نجکاری کو اس صورتحال کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا ہے پاکستان کی بڑی بڑی سماجی تنظیمیں بشمول انسانی حقوق اور لیور یونینز پاکستان میں اشرفیہ کی اجارداری ختم کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہیں شاید اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوگی کہ ان کی قیادت ایسے افراد کی ہتھے چڑھ گئی ہیں جو فکری دیوالیہ پن سیاسی کھوکھلا پن کا شکار ہے اور قومی اور اجتماعی مقاصد حاصل کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے چکر میں پڑ گئے ہیں انہوں نے خوشامدانہ رویے بڑھا دیے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کیا جس سے بدعنوانی اور لاحاصل سمجھوتوں اور کرپشن ،کاہلی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا بہت ساری مزدور تنظیموں نے بھی اپنے کارکنوں کو سیاسی طور پر غیر فعال بنا دیا ہے اور استصال کی بنیادی ڈھانچوں کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہی ہیں
اگر مزدور تنظیمیں اپنی جدوجہد استحصاری ڈھانچی کے خلاف اور دولت اور وسائل پیداوار اور تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں مرکوز ہونے ،سماجی انصاف اور افرادی ترقی کی کو اجاگر کرنے اور اپنی قوتیں ان پر عمل درآمد کرانے میں لگاتی توآج صورتحال مختلف ہوتی زیادہ تر مفکرین کی یہی رائے ہے کہ اشرافیہ ریاستی اداروں پر مکمل طور پر قابض ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کو بری حکمرانی بدعنوانی ناانصافی جبر اور آئینی حقوق سے بھی محرومی کا سامنا کرنا پڑا ہے
سماجی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت ہر پالیسی ناقص ہے اس کا تعلق پاکستان کے ہر اس ادارے پر اشرفیہ کے قبضے سے جڑتا ہے جو ملک کے پاس بہتری کے لیے کام کر سکتا اور وہ ادارہ جس کے پاس طاقت ہے وہ ریاست کے لیے کام نہیں کرتا وہ اپنے گروہ کے لیے کام کرتا ہے اور ان چند لوگوں کے لیے کام کرتا ہے اور ان کے ساتھ رابطے بناتا ہے جو اس "سٹیٹس کو” نہ چھیڑے