
حافظ آباد ۔۔۔ گوالمنڈیلا کی ٹھس جلسی ۔۔۔ حافظ شفیق الرحمن
یہ ہولناک منظر دیکھ کر اس نے جلسہ کے منتظمین کو سٹیج پر پہنچتے ہی غصے میں خوب لتاڑا اور برا بھلا کہا ۔۔۔ گاڈ فادر کی بدن بولی اعلان کر رہی تھی
ریاستی و حکومتی اداروں کی بھر پور سہولت کاری کے باوجود گاڈ فادر کا حافظ آباد جلسہ کا پنڈال خالی تھا۔ چند ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ سکولوں کے بچوں اور اساتذہ ء کرام کو چھٹی دی گئی ، ان کی جلسہ میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ان کی حاضری تک پنڈال میں لگانے کے وربل آرڈر بھی جاری کیے گئے تھے تاہم اساتذہ اور بچوں کی جبری شرکت انتہائی کم تھی ۔ میونسپل کارپوریشنز کے درجہ چہارم کے ملازمین کو جبرا جلسہ گاہ میں لایا گیا۔ ہزار کے قریب سفید لباس میں کانسٹیبل ، 100 سے زائد ایس ایچ اوز ، 30 ڈی ایس پی اور 3 ایس پی سکیورٹی پر مامور تھے۔ دیگر سیکڑوں سرکاری ملازمین بھی سامعین میں شامل تھے۔ تا ہم مسلم لیگ کے معدودے چند کارکنوں کے علاوہ اکثر نے جلسہ میں شرکت نہ کی۔ جتنی بھی کرسیاں تھیں ، آدھی خالی تھیں۔ 12 بجے کا اعلان تھا کہ جلسہ شروع ہوگا لیکن جلسہ گاہ میں 2 بجے تک الو بول رہے تھے ۔ گاڈ فادر چار و ناچار 2 بجے کے بعد وہاں پہنچا۔ اس کے چہرے پر چھآئی مردنی شکوہ کر رہی تھی کہ حافظ اباد والو ، تم نے اچھا نہیں کیا، میں 10 سال بعد تمہارے شہر میں آیا ، جس کی آبادی لاکھوں میں ہے ۔ تم نے لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود میری امد کا نوٹس نہیں لیا۔ نگران حکومت کی انتظامیہ کی پکڑ دھکڑ نہ ہوتی تو یہ دوچار ہزار جبری سامعین بھی آس سٹیڈیم میں کہاں سے آتے۔ یہ نا گفتنی منظر دیکھ کر قومی مجرم کے چہرے کی ہوائیاں اور ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اس کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی چلسی اتنی ٹھس اور بے جان ہوگی۔
یہ ہولناک منظر دیکھ کر اس نے جلسہ کے منتظمین کو سٹیج پر پہنچتے ہی غصے میں خوب لتاڑا اور برا بھلا کہا ۔۔۔ گاڈ فادر کی بدن بولی اعلان کر رہی تھی
* دیکھو ، مجھے جو دیدہ ء عبرت نگاہ ہو *
صاحبو ، اس جلسہ کے شرکاء سے دس گنا زیادہ لوگ تو عمران کے جلسے سے ایک رات قبل جلسے کی تیاریاں دیکھنے آجایا کرتے تھے۔ مین سٹریم میڈیا کیمرا اینگلنگ کے باوجود اسے کامیاب شو دکھانے میں بری طرح ناکام رہا ۔ نواز شریف نے فلاپ شو دیکھ کر 10 منٹ کا بھاشن دیا ، خطاب *مجھے کیوں نکالا * والی پرانی تقریر کا عکس تھا ۔ بے اثر ، بے نمک اور بے ترتیب تقریر کو کسی بھی نے توجہ سے نہیں سنا ۔وہ آپس میں گپ شپ لگانے اور کھسر پھسر کرنے میں مصروف تھے۔ بور ہو کر آدھے سے زیادہ سامعین نے ان کی تقریر کے دوران ہی اٹھ کر جانا شروع کردیا۔ وہ جا رہے تھے اور زیر لب سسیلین مافیا کے گاڈ فادر سے اظہار نفرت کرتے ہوئے رپورٹروں کو بتا رہے تھے کہ وہ شغل میلے اور تفریح کے لیے یہاں آئے تھے ، حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ووٹ صرف اور صرف قیدی نمبر 804 کا ہے۔
ہر سو ویرانی اور خالی پنڈال دیکھ کر نواز نے تقریر ادھوری چھوڑ کر بھاگنے اور پتلی گلی سے نکل جانے ہی میں عافیت جانی ۔ اس جلسے کا واحد مقصد آل شریف کو انتباہ اور مطلع کرنا تھا کہ میری جانشین صرف اور صرف مریم نواز ہے۔ یہ اعلان انہوں نے اپنے بعد مریم کی تقریر کر وا کر کیا۔ مریم نواز کی تقریر شروع ہوتے ہی سیکڑوں لوگ جلسہ گاہ سے با ہر نکلنا شروع ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے لیڈر کی کراؤن پرنسس تقریر کر رہی ہے اور آپ واک آؤٹ کر رہے ہیں ۔ اس بیچاری کی بات تو سنیں ، ان میں ایک منچلے نے کہا ۔۔۔ بس اسے دیکھنا تھا ، دیکھ لیا۔ ایک اور نے کہا ۔۔۔ اسے تقریر کرنا کہاں آتی ، یہ تو پرویز رشید کا لکھا اور رٹا رٹایا عمران نامہ پڑھتی ہے۔
حافظ آباد میں ن لیگ کا شو مکمل طور پر ایک ناکام اور ٹھس شو تھا۔ پآکستان واپسی کے بعد گوالمنڈیلا دوسری مرتبہ ناکام ترین جلسہ دیکھنے کے بعد دل ہی دل میں اپنے آبائی وطن انگلستان روانگی کی تیاری کرنے کا پلان بنا رہا ہے ۔۔۔ دل کا جانا ٹھہر گیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا ۔ ڈیپریشن اور ہائیپر ٹینشن کی وجہ سے گاڈ فادر حقیقی معنوں میں بیمار ہو چکا ہے ۔ حافظ کو خوش کرنے کے لیے اس نے دوسرا جلسہ حافظ آباد میں رکھا تھا لیکن ایجنسیوں نے حافظ جی کو بتادیا ہے کہ حافظ آباد میں لاڈلے پلس کا شو بری طرح فلاپ رہا۔ اب تو اس کی ساکھ راکھ ہو چکی۔