میکڈونلڈز کا اسرائیل غزہ تنازع پر بائیکاٹ مہم کی وجہ سے کاروبار پر ’معنی خیز‘ اثر پڑنے کا اعتراف، مصنوعات کی قیمتوں میں 60 فیصد تک کمی کا اعلان کردیا.
حکمران اشرافیہ نے تو بھنگ پی رکھی ہے کیا ہمارے بزنس مین بھی بھول چکے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں وہ مسلمان جنہوں نے ایک ہزار سال سے زیادہ دنیا کی تجارت پر بلا شرکت غیرے راج کیا۔
لاہور پاکستان(سید عاطف ندیم وائس آف جرمنی):میکڈونلڈ کارپوریشن نے پاکستان سمیت مختلف ممالک نے بائیکاٹ مہم کے توڑ کے لیے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں 60 فیصد تک کمی کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے سی ای او میکڈونلڈ کارپوریشن نے بائیکاٹ کرنے والے ممالک کو دھمکی کے انداز میں کہا تھا کہ بائیکاٹ مہم سے ان کے شہریوں کو نقصان ہوگا مقامی سرمایہ کاروں کے کاروبار بند ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی طور نوکریاں بھی ختم ہونگی۔یہاں دو سوال ہیں نمبر ایک میکڈونلڈ کی شرح منافع کتنی ہے؟ اور وہ کس طرح سے پاکستان جیسے ملکوں کو مقامی ارب پتیوں کے ساتھ مل کر لوٹ رہا تھا یہی حال دیگر عالمی کارپوریشنز کا ہے۔ان ارب پتیوں کو کوئی فرق پڑے گا نہ ہی میکڈونلڈ کارپوریشن جیسی دنیا کی بڑی فوڈ چین کو ،اس سے الگ مہم چلائیں کہ لوگ چھوٹے مقامی کاروبار کو سپورٹ کریں تاکہ ان عالمی کمپنیوں کی نوکریاں ختم کرنے کی بلیک میلنگ ختم ہو۔مقامی ریسٹورنٹس پر جائیں ان کا بزنس بڑھے گا تو جو مقامی ورکر عالمی معاشی دہشت گردوں کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں مقامی بزنس ان کو نوکریاں دینے کے قابل ہونگے۔مقامی ارب پتی لٹیروں کو بھی مجبور کریں 60 فیصد تک قیمتیں کم کرنا امتحان ہوگا عام شہریوں کا کہ وہ ہمیشہ کی طرح کم قیمت دیکھ کر فوری میکڈونلڈز کے ریسٹورنٹس بھر دیتے ہیں تو یہ پیغام ہوگا کہ بائیکاٹ کسی نظریے کے لیے نہیں تھا۔مقامی ارب پتی جو میکڈونلڈز جیسی عالمی کارپوریشنز کے فرنچائزی ہیں ان کے کئی کاروبار ہیں ان کے تمام کاروباروں کا بائیکاٹ کیا جائے تاکہ وہ مقامی برانڈ شروع کریں انہیں صرف ایک ہی طریقے سے مجبور کیا جاسکتا ہے کہ ان کے منافع پر کٹ لگے یہ وہ چیز ہے جسے یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور کسی طریقے سے انہیں جھکانا ممکن نہیں کیونکہ ان کا دین ایمان سب کچھ پیسہ ہے سو انہیں ان کی اسی کمزوری سے زیر کیا جاسکتا ہے۔کاروبار میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان بھی دوستوں سے مل کر اپنے کاروبار شروع کریں ان کے مقابلے میں اور عام شہریوں میں اس بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔میکڈونلڈ کارپوریشن صرف ایک کمپنی نہیں جو اسرائیلی فوج کو مفت کھانا فراہم کررہی ہے جتنی بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں وہ سب کسی نہ کسی طریقے سے مدد فراہم کررہی ہیں لہذا ان سب کا بائیکاٹ کیا جائے اور ان کے متبادل مقامی کاروبار شروع کیے جائیں۔ایمزون کارپوریشن پر فروخت ہونے والی 90 فیصد سے مصنوعات چین میں تیار ہوتی ہیں اگر پاکستانی کاروباری دیانت داری سے اسی کوالٹی کی مصنوعات بنوائیں تو نہ صرف وہ صارفین کو سستی ملیں گی بلکہ مقامی مارکیٹ بھی مضبوط ہوگی، ایمزون بنگلہ دیش سے گارمنٹس خرید کر ہمیں بیچ رہا ہے تو ہم براہ راست بنگلہ دیش سے کیوں نہیں خرید سکتے صرف ہمارے صنعت کاروں اور تاجروں کو دیانت داری سے کاروبار کرنا ہوگا۔صارفین چین کی مصنوعات ایمزون سے خریدنا کیوں پسند کرتے ہیں کیونکہ مقامی تاجر اعتماد کھو چکے ہیں یہ خیال عام ہے کہ مقامی طور پر دستیاب اشیاء کی کوالٹی بہت بری ہوتی ہے۔امریکا کی مقامی موبائل فون کمپنی "بلیو موبائل ” چین سے ہینڈ سیٹ تیار کرواتی ہے جو 2 سو ڈالر سے 3 سو ڈالر میں فروخت ہوتا ہے مگر کوالٹی اور ہارڈ ویئر اور سافٹ وئیر میں یہ پاکستان میں دستیاب سام سنگ کے ہینڈ سیٹ سے گئی گنا بہتر ہے کوئی پاکستانی کمپنی "بلیو موبائل ” کی کوالٹی کا فون تیار نہیں کرواسکتی جو بہت سستا مل سکتا ہے۔حکمران اشرافیہ نے تو بھنگ پی رکھی ہے کیا ہمارے بزنس مین بھی بھول چکے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں وہ مسلمان جنہوں نے ایک ہزار سال سے زیادہ دنیا کی تجارت پر بلا شرکت غیرے راج کیا۔