پیر مشتاق رضویکالمز

زرداری اور عمرانی امیدواروں کی ممکنہ الیکشن ڈیل !!……. پیر مشتاق رضوی

اس بارے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن میں کامیابی کے بعد پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کا پارلیمانی گروپ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے

8 فروری 2024ء کے الیکشن میں ملک بھر سےآزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے تقریبا ساڑھے تین ہزار سے زائد آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ان میں تقریبا دو ہزار ایسے آزاد امیدوار بھی ہیں جنہیں تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ان آزاد امیدواروں کا پارلیمنٹ میں کیامستقبل ہوگا؟اس بارے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن میں کامیابی کے بعد پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کا پارلیمانی گروپ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن آئینی اور قانونی حوالوں سے آزاد امیدواروں کے مستقبل کے بارے میں بحث جاری ہے،، دراصل عمران خان اپنی پارٹی تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو ختم کرنے کے خود ذمہ دار ہیں عمران خان نے اپنے دور اقتدار کے آخر میں اپنے خلاف تحریک اعتماد کو کامیاب ہوتے دیکھ کر قومی اسمبلی کو توڑنے کی ایڈوائس دی تھی جسے عدالت عالیہ نے غیر آئینی اقدام قرار دیا تھااور اس وقت کے پرائم منسٹر مسٹر عمران خان اور سپیکر قومی اسمبلی کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا تھا تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار انتخابات میں ممکنہ کامیابی کے بعد پارٹی میں شامل کیوں نہیں ہو سکیں گے اور کیا تحریک انصاف پر پارلیمانی سیاست کے دروازے بند ہو گئے ہیں ؟ اس سوال کی تواتر کے ساتھ باز گشت جاری ہے اس سلسلے تحریک انصاف کئی آپشنز پر غور کر رہی ہے”۔ الیکشن رولز 2017 کے سیکشن 94 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں آزاد امیدوار کامیابی کی صورت میں اسی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکیں گے  جسے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان جاری کیا ہوا ہے۔ رولز کے تحت تحریک انصاف کے آزاد امیدوار کامیابی کی صورت میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہیں کرسکیں گے۔ الیکشن رولز 2017ء کے سیکشن 94 کے مطابق آزاد امیدوار تین روز میں کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان کرے گا یہ اسی  رولز 94 میں وضاحت کی گئی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف اپنے امیدواروں سے بانی پارٹی عمران خان کے ساتھ مکمل وفاداری کا قرآن پر حلف لے رہی ہے اور اب پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے الیکشن کمیشن کے ٹیکنیکل تحفظات دور کرنے کے لئے 5 فروری کونئے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے اس کے لئے باقاعدہ الیکشن شیڈول کابھی اعلان کردیا گیاہے ۔
اِسکے علاوہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ عمران خان کے نام کا ووٹ لے کر اُمیدوار کسی اور سیاسی جماعت میں شامل ہوجائیں گے ؟ بے شک ان کا کسی سیاسی جماعت سے اتحاد ہی کیوں نہ ہو، اس طرح تو کپتان اور اُنکی جماعت مکمل طور پر الیکشن سے آؤٹ ہے اور ائندہ پانچ سال کے لیے مائنس ہو چکی ہے کیا یہ سب کرنے کے لئے کپتان عمران خان اور کابینہ نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا تھا اور دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کی تھیں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور وکلاء عمران خان کی رہائی ممکن بنانے اور بلے کا نشان بچانے میں ناکام رہے ہیں، نہ ہی کوئی سیاسی جدوجہد کی گئی سڑکوں پر اور نہ ہی کوئی وکلاء تحریک چلی؟ باہر آکر صرف یہ بتایا جاتا کہ کپتان بہت خوبصورت لگ رہے تھے اور ان کو باہر آنے کی کوئی آرزو نہیں ہے ،جو قانون دان کپتان کے مقدمات لڑ رہے تھے، اُنکی کورٹ پرفارمنس صفر دکھائی دی ، بس مفت کی سیاسی تقریریں اور عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف ایک سیاسی بیانیہ بنانا عمران خان کا خاص مقصد ہے تاکہ وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام کو ایکسپلائٹ کر سکیں اور اداروں کے خلاف محاذ آرائی کو بھڑکایا جائے اس کے ساتھ تحریک انصاف کی یہ حکمت عملی ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کر سکیں اور کہا جا سکے کہ الیکشن کمیشن کے تحفظات دور کر دئیے گئے ہیں لہٰذا وہ بلے کا نشان پارٹی کے لیے دوبارہ بحال کرے ۔ اور کم از کم الیکشن 2017ء کے قوانین سیکشن 94 کے خلاف ممکنہ کامیاب آزاد ممبران اسمبلی پر مشتمل پارلیمانی پارٹی تشکیل دی جا سکے ایک رپورٹ کے مطابق تحریکِ انصاف سے انتخابی نشان چھین جانے سے تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 70 مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی ہے رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر قانون دان اعتزاز احسن کے شاگرد بیرسٹر گوہر خان اور پیپلز پارٹی کے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ جیسے وکلاء تحریکِ انصاف کے ووٹ بنک سے 70 یا 80 آزاد امیدواروں کو جتوا کرمبینہ ملی بھگت سے بلاول بھٹو کے لئے وزارتِ عظمیٰ کا راستہ ہموار کر رہے ہیں- اگر بیرسٹر گوہر خان کی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں میں سے 70 یا 80 ممکنہ منتخب ارکان قومی اسمبلی میں سے کم از کم 40 یا 50 کامیاب ارکان کو پیپلز پارٹی میں شامل کروا دیں گے – ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی پارلیمانی اکثریت حاصل کر کے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنوا سکتی ہے دریں اثناءپی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین سے زرداری کی مبینہ ڈیل کا مقصد یہ بھی ہے کہ آزاد اراکین کو ساتھ ملا کر بلاول کی حکومت بنانے کے علاؤہ میاں نواز شریف کو اقتدار میں آنے سے روکنا بھی ہے تاکہ میاں نواز شریف حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں، ذرائع کے مطابق اس سلسلے بلاول ہاؤس نے انتخابی حکمت عملی ترتیب دی ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ایسے آزاد اراکین کی تفصیلات بھی اکٹھی کی گئی ہیں جن حلقوں میں پیپلز پارٹی کی امیدوار نہ ہیں یا پیپلز پارٹی کی امیدوار کی پوزیشن کمزور ہے اور ان انتخابی حلقوں میں پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کی سپورٹ کرنے سے سیٹیں نکالی جا سکتی ہیں جناب آصف زرداری کی خصوصی ہدایت پر ایسے آزاد امیدواروں کے ساتھ الیکشن ڈیل کی جا رہی ہے جو امیدوار کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت کی یقین دہانی کرائیں گے پیپلز پارٹی الیکشن میں ایسے امیدواروں کی بھرپور سپورٹ کرے گی خصوصا جنوبی پنجاب میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود سرگرم عمل ہیں اس سے قبل ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ” ہمارا ٹارگٹ ہمیشہ سے پنجاب تھا رہے گا الیکشن کے بعد کافی لوگ پیپلز پارٹی میں واپس آ جائیں” گے اس تناظر میں پی پی پی کی قیادت آزاد امیدواروں سے رابطے کر رہی ہے اور مقامی سطح پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس کے علاوہ آزاد امیدواروں کو اس ڈیل کے مطابق یہ بھی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ مقتدرہ حلقوں کی طرف سے انتخابی مہم چلانے میں انہیں مکمل طور پر آزادی حاصل ہوگی اور وہ کسی پابندی اور رکاوٹ کے بغیر آزادانہ انتخابی مہم چلا سکیں گے کیونکہ لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی سازگار ماحول فراہم کیا گیا ہے تاکہ انتخابات کے کھیل کو بھرپور طریقے سے رچایا جا سکے کیونکہ پیپلز پارٹی نے بھی مقتدر حلقوں سے نواز شریف کی طرح اپنے حصے کا ریلیف مانگ رکھا ہے جناب زرداری کا پنجاب میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کا ٹارگٹ ہے تاکہ وہ بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا وزیراعظم بنا سکیں بعض مبصرین 8 فروری کے الیکشن کے بعد آزاد اراکین کے حوالے سے پیش منظر کے طور پر یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت سازی کے لیے اسمبلی میں ھارس ٹریڈنگ ہوگی اور بڑے پیمانے پر آزاد اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت ہوگی اور عوام کے مینڈیٹ کی سر عام نیلامی ھوگی جو کہ جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے اور جمہور کی توہین ہوگی جبکہ بلاول بھٹو اس خرید و فروخت کا ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ وہ آزاد اراکین کو ساتھ ملا کر حکومت بنائیں گے ۔ الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اوراس سلسلے الیکشن کمیشن اف پاکستان کو بھی پیش بندی کرنی چاہیے ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کے لیے ائینی اور قانونی اقدامات کیے جائیں.

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button