نئی حکومت اور معاشی چیلنجز۔۔۔ !!پیر مشتاق رضوی
لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تبدیلی لانے والوں نے اس معاشی خوشحالی کے سفر کو معاشی بربادی میں تبدیل کردیا عمرانی دور شروع ہوتے ہی ایک طرف مافیاز نے ملک میں وسیع پیمانے پر لوٹ مار شروع کر دی تو دوسری طرف پاکستان کو قرضوں کے منحوس شکنجے میں پھنسا دیا گیا
2016ء میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو خیر اباد کہہ دیا تھا اور پاکستان بین الاقوامی مالیتی اداروں کے قرضوں کے چنگل سے آزاد ہونے جا رہا تھا اس کے ساتھ سی پیک کے شروع ہونے سے پاکستان کی معاشی خوشحالی کا سفر بھی شروع ہو چکا تھا سی پیک کے میگا پروجیکٹس کے تحت 40 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری پاکستان میں شروع کی جا رہی تھی لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تبدیلی لانے والوں نے اس معاشی خوشحالی کے سفر کو معاشی بربادی میں تبدیل کردیا عمرانی دور شروع ہوتے ہی ایک طرف مافیاز نے ملک میں وسیع پیمانے پر لوٹ مار شروع کر دی تو دوسری طرف پاکستان کو قرضوں کے منحوس شکنجے میں پھنسا دیا گیا 2018ء سے 2023ء تک مزید 24 ہزار ارب روپے کے ریکارڈ قرضہ لیا گیا اور ملک و قوم کو آئی ایم ایف کا گروی بنا دیا گیا یہ لیا جانے والا قرضہ گزشتہ 75 سالوں میں لیے جانے والے مجموعی قرضوں سے بھی زیادہ تھا سی پیک کو پیک کر دیا گیا اور خوشحال پاکستان کو معاشی طور پر بدحال کر کے رکھ دیا گیا مہنگائی آسمان کی بلندی کو چھونے لگی 48 فیصد شرح مہنگائی نے غریب عوام کو زندہ درگور کر دیا فی کس آمدنی میں ریکارڈ کمی ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان کی تقریبا نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے لیے بجلی گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ کر دیا گیا ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی پاکستان کے زر مبادلہ چند ارب ڈالر رہ گئے مالی خسارہ منفی 18 فیصد تک جا پہنچا پاکستان کی روپے کی قدر انتہائی گراؤٹ کو جا پہنچی
بین الاقوامی مالیاتی ادارے گٹھ جوڑ کرکے دنیا بھر کے ملکوں کی ترقی پزیر ممالک کی معیشت کو اس طرح کنٹرول کرتے ہیں کہ جب چاہیں کسی ملک کی کرنسی کی قیمت کو گھٹا یا بڑھا دیں۔ جس ملک کی کرنسی کی قیمت گرتی ہے اس ملک کے شہریوں کے ذرائع آمدنی پر بھاری ٹیکسز کاغیر منصفانہ اور بظاہر قانونی ڈاکہ پڑ جاتا ہے۔ زرمبادلہ کا ذخیرہ کم ہو جاتا ہے۔ ادائیگیوں کے لئیے اسے سود پر مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔ بین الاقوامی استعمار جس ملک کو نشانہ بنالیں اس ملک کی کرنسی کو اتنا گراتے چلے جاتے ہیں کہ اصل تو کیا صرف سود ادا کرنے کے لئے اس ملک کو مزید قرضے لینے پڑتے ہیں
پاکستان میں بڑھتے ہوئے 22 فیصد شرح سود نے ملک میں سرمایہ کاری کو ختم کر کے رکھ دیا بجلی اور پٹرولیم اور توانائی کے بحران سے ملک کے کارخانے سے فیکٹریاں کو بند ہونے لگیں اس کے ساتھ ساتھ کرپشن نے رہی سہی کسر پوری کر دی ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا 15 سے 20 ارب روپے کی روزانہ کرپشن کی جاتی ہے اور اربوں روپے کے ٹیکسزاور بجلی کی چوری بھی جاری ہے سمگلنگ، منافع اور سودخوری نے ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے
ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 6ارب ڈالر کا نیا قرض پیکج لینے کی تیاری کرلی گئی ہے، پاکستان نے آئی ایم ایف کی 26 میں سے 25 شرائط پر عمل درآمد مکمل کرلیا۔ واضح رہے کہ 70ء کی دہائی میں ملکی قرض 10 ارب ڈالرز بھی نہ تھا، جو اب 130 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 31 دسمبر 2023ء تک مجموعی طور پر 65 ہزار 189 ارب روپے کا اندرونی وبیرونی قرضہ ہے، جس میں گزشتہ سال 14000 ارب روپے کا اضافہ ہوا، گزشتہ سال قرضے میں 27.7 فیصد اضافہ ہوا۔آئی ایم ایف کے مختصرمدت کے بیل آوٹ پیکج کے بدولت پاکستان ڈیفالٹ سے تو نکل گیا تاہم پروگرام کے باعث ملکی معیشت اورعوام کو بے انتہا معاشی بوجھ کا سامنا کرنا پڑا۔وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت ایک ارب دس کروڑ ڈالر مالیت کی آخری قسط کیلئے دوسرے اقتصادی جائزہ پر مذاکرات نئی حکومت کے ساتھ متوقع ہے۔ آئی ایم ایف نے نئی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف مشن پاکستان آمد سے قبل اہداف پر عملدرآمد کی رپورٹ کا جائزہ لے گا، نئی حکومت کے قیام کے بعد آئی ایم ایف مشن دورہ پاکستان کا شیڈول طے کرےایک طرف ملکی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ائی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کی ڈیل کی جا رہی ہے جس سے شدید مہنگائی کی ایک اور لہر آئی گی بجلی ،پیٹرولیم اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہوگا دوسری طرف عمران خان مبینہ دھاندلی پر ائی ایم ایف کو خط لکھیں گے کہ نئی انے والی حکومت کو آئی ایم ایف قرضہ نہ دے تحریک انصاف کی ائی ایم ایف کا قرضہر کو انے کی کوشش بھی نئی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے پاکستان میں آنے والے دنوں میں ملکی معاشیت انتہائی تشویش ناک صورتحال اختیار کر سکتی ہے رواں سال کی مالیتی رپورٹس میں معشیت کو لاحق آٹھ بڑے خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں مائکرو اکنامک عدم توازن ،بڑھتا ہوا بھاری قرضہ ،خسارے سے دو چار سرکاری ادارے ،موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات اور مسائل ،پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ خدشات، صوبائی مالیاتی ڈسپلن اور گورنر سے متعلق چیلنجز شامل ہیں رپورٹ توانائی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ خصوصا بجلی ،گیس اور پٹرولیم کے نرخوں میں اضافہ اور ہوش ربا مہنگائی کے بڑھنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے غیر ملکی قرضوں پر واجب الادا سود ،مالیاتی خسارے بھی ملک کو درپیش معاشی بحران کی سب سے بڑی وجہ ہے گزشتہ 20 ماہ میں دو مرتبہ ملک دیوالیہ کی حد کو پہنچ چکا تھا قومی معیشت کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ائندہ چار ماہ میں نئی حکومتوں کو سنگین معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں غیر ملکی بھاری قرضے کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے کم از کم 22 ارب ڈالر کے خطیر سرمایہ کی ضرورت ہے جس کا سٹیٹ بینک کے پاس محفوظ ہونا ضروری ہے جبکہ سٹیٹ بیک کا موجودہ حجم آٹھ ارب ڈالر ہے ان چیلنجز کے پیش نظر پاکستان ایک انتہائی نازک مقام پر پہنچ چکا ہے معاشی مسائل کا حل ان کی وجہ بننے والے عوامل میں ہی پوشیدہ ہے پاکستان کو درپیش سیاسی اور معاشی معروضی حالت کی بنا پر ٹیکسز کے غلط اہداف، درامدات برامدات میں عدم توازن، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم قابل ذکر ہیں بتایا جاتا ہے کہ حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والی ہر سیاسی پارٹی نے اپنے ووٹر سے مہنگائی ختم کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے جن کو اب پورا کرنا ضروری ہے سنگین معاشی مسائل اور چیلنجز پر قابو پانا نئی حکومت کا لیے ایک بہت بڑا ٹاسک ہے اور معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نئی بننے والی حکومت فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس جائے گی ملک و قوم انتہائی معاشی مشکلات کا شکار ہیں بجلی ،گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی ناقابل کنٹرول حدوں کو چھو رہی ہے اور اس کا خمیازہ غریب تنخواہ دار اور مزدور طبقے کو بھگتنا پڑ رہا ہے نئی منتخب حکومت کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے سب سے پہلے مافیاز کو لگا دینی ہوگی مہنگائی کو کنٹرول کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی کی جائے شرح سود میں بھی کمی لازمی لازم ہے جبکہ بے روزگاروں کے لیے روزگار کے نئے مواقع فراہم کیے جائیں ملک میں سرمایہ کاری کو لایا جائے گزشتہ دور میں آئی ایس ایف کے پلیٹ کی طرف سے 30 ارب ڈالر کی نئی بیرونی سرمایہ کاری کی نوید سنائی گئی تھی اس کے لیے یقینی اقدامات کیے جائیں سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ان چیلنجز سے نبٹنے کے لیے مشترکہ عمل اختیار کریں اس سلسلے معاشی میثاق ناگزیر ہے