"وزراءاعلیٰ کاپی ایس ایل” شروع !!!پیر مشتاق رضوی
نو منتخب وزیراعلی' کے پی کے علی امین گنڈاپور نے صوبائی اسمبلی میں وزیراعلی' منتخب ہونے پر اپنا بھرپور خطاب کیا جو کہ ان کی پارٹی پالیسی کی مکمل عکاسی کرتا ہے
محترم قارئین کی خدمت میں سب سے پہلے زعفرانی جملہ پیش خدمت ہے ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ تینوں صوبوں میں وزیراعلی’ ہوتا ہے اور خیبر پختون خواہ میں وزیراعلی’ ہوتی ہے اور اب تینوں صوبوں میں وزیر اعلیٰ ہوتا ہے اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ ہوتی ہے ”
جیسے ہی کپتان عمران خان نے جوشیلے کھلاڑی اور اینگری مین علی امین گنڈاپور کو کے پی کے کا وزیراعلی’ نامزد کیا حریف سیاسی حلقوں کے ذہنوں میں الارم کی گھنٹیاں بجنے لگیں کہ عمران خان بدستور محاذآرائی کی سیاست کو جاری اور ساری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ علی امین گنڈا پور مختلف سیاسی قائدین کے خلاف متنازعہ بیانات کے حوالے سے بھی خاصی شہرت رکھتے ہیں گزشتہ روز
نو منتخب وزیراعلی’ کے پی کے علی امین گنڈاپور نے صوبائی اسمبلی میں وزیراعلی’ منتخب ہونے پر اپنا بھرپور خطاب کیا جو کہ ان کی پارٹی پالیسی کی مکمل عکاسی کرتا ہے ان کا خطاب پاکستان کے دیگر صوبوں کے وزراء اعلی’ کے لیے ایک چیلنج ہی نہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے لئے کئی پوشیدہ پیغام لئے ہوئے ہے انہوں نے اسمبلی میں مکمل جوش و جذبے کے ساتھ بھرپور خطاب کیا چونکہ کے پی کے اور دیگر تینوں صوبوں پنجاب سندھ اور بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کی واضح اکثریت ہے اور وزرائے اعلیٰ کا انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے اس حوالے سے تحریک انصاف پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے مابین سیاسی مقابلہ بازی حسب سابق جاری رہے گا لیکن چاروں صوبائی وزرائے اعلی’ کی کارکردگی کا مقابلہ بھی ہوگا جو کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاسی مستقبل کا بھی تعین کرے گا سندھ کی وزیر اعلی’ مراد علی شاہ تیسری بار وزیراعلی’ سے منتخب ہوئے اور گزشتہ تین ادوار میں ان کی کارکردگی کے لحاظ سے سندھ کی کامیاب وزیراعلی’ سمجھے جاتے ہیں نو منتخب وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صوبہ سندھ کا بجٹ نے خود لکھنے کا تجربہ رکھتے ہیں سید مراد علی شاہ اپنے تدبر کے ساتھ سیاسی معاملات کو چلانے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں جبکہ انہیں دوبارہ منتخب ہونے والےصدر مملکت جناب آصف زرداری کی بھی مکمل سرپرستی اور سیاسی سپورٹ حاصل رہے گی جولائی 2016ء میں بزرگ سیاست دان قائم علی شاہ کو ہٹا کر مراد علی شاہ کو سندھ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ 2018 ءکے الیکشن میں کامیابی کے بعد وہ دوسری بار اس منصب پر فائز ہوئے۔انجینیئرنگ اور مالیات کا پس منظر ہونے کی وجہ سے وہ سندھ کے صوبائی محکموں کی معلومات بھی اچھے سے رکھتے ہیں جبکہ وفاق اور پنجاب سے سندھ حکومت کے وسائل اور پانی کی تقسیم کے معاملے میں بھی انھیں مہارت حاصل ہے۔
وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہو یا پاکستان تحریک انصاف کی ان دونوں سے ہی ان کا ورکنگ تعلق بہتر رہا باوجود اس کے کہ سیاسی طور پر ان کی پارٹی قیادت کے تعلقات ان جماعتوں سے کشیدہ تھے
مراد علی شاہ سے جب بی بی سی نے یہ سوال کیا کہ حالیہ مدت میں آپ کی کیا ترجیحات اور پروگرام ہوں گے، تو اُن کا کہنا تھا کہ پارٹی کا منشور اور پروگرام ہی ان کا ترجیحی پروگرام ہو گا
پاکستان کی تاریخ میں محترمہ مریم نواز کو پنجاب کی پہلی بار خاتون وزیراعلی’ منتخب ہونے کا تاریخی اعزا حاصل ہوا ہے ان کے والد محترم میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ بننے سے کیا وہ وزیراعلی پنجاب بھی رہے بعد ازاں تین بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے جبکہ ان کے چچا میاں شہباز شریف تین بار وزیراعلی’ پنجاب اور ایک بار 16 ماہ کے وزیراعظم بھی رہے اور یہ وہ ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر اور مینیجر ثابت ہوئے انتھک کام کرنے اور ان کے متحرک اندازحکمرانی کا کوئی ثانی نہیں پنجاب کے علاوہ ملک کی تعمیر ترقی کے حوالے سے عالمی سطح پر وہ اپنی ایک خاص شہرت رکھتے ہیں اس طرح محترمہ مریم نواز صاحبہ کو جو کہ پہلی بار پارلیمنٹ کا حصہ بنی ہیں گو کہ انہیں حکومت چلانے کا خاص تجربہ نہیں ہے لیکن سابق حکمرانوں کی سرپرستی میں پنجاب کی حکمرانی کا تجربہ حاصل ہے میاں شہباز شریف سابق وزیراعلی’ پنجاب ان کے لیے رول ماڈل ہیں اور پنجاب کے عوام کو گڈگورننس کے حوالے سے ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں
پنجاب کی نو منتخب وزیراعلی محترمہ مریم نواز صاحبہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے بھرپور سرگرمی سے سرکاری فرائض انجام دینا شروع کر دیے ہیں انہوں نے کہا کہ پنجاب کے 12 کروڑ عوام کی بہت بڑی ذمہ داری ہے میرا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ جماعت کے لیڈروں سے ہے ان سب سے ہٹ کر پنجاب کی خدمت کرنی ہے انہوں نے کہا کہ ہر منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے مشکلات ائیں پھر آسانیاں اور عزت یہی قدرت ہے انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ میرٹ اور شفافیت پر وہ یقین رکھتی ہیں ان کے "خوشحال اور محفوظ پنجاب "ایجنڈے میں تعلیم ،صحت ،آئی ٹی ترقی،یوتھ ڈویلپمنٹ ، ٹرانسجیڈر اور وویمن ایمپاورمنٹ، فارمرز ڈویلپمنٹ اوربہتر شہری سہولیات کے پروگرامز میں شامل ہیں
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی خاتون کوہراساں کرنا میری ریڈ لائن ہوگی اس سلسلے انہوں نے اپنے باقاعدہ فریم آف ورک پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے
بلوچستان کے نو منتخب وزیراعلی’ میر سرفراز بگٹی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں وہ اس سے پہلے پاکستان کے نگران وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے 47 سالہ سرفراز بگٹی اس سے قبل بھی بلوچستان اور وفاق میں وزیر رہے ہیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ کو آئندہ پانچ برسوں کے دوران اہم چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ بالخصوص صوبے میں جاری امن و امان کی خراب صورتِ حال نئی حکومت کے لیے بڑا مسئلہ ہو گا انہوں نے بھی دہشت گردی، سمگلنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو چیلنجز قرار دیا ہے جبکہ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ شرپسندوں کے خلاف ہر صورت ریاستی رٹ قائم کریں گے جبکہ میر سرفراز بگٹی کے لئے بلوچستان کے عوام میں پائے جانے والے شدید احساس محرومی کو ختم کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے اس سلسلے امید قوی ہے کہ سرفراز کبھی مایوس نہیں کرے گا
کے پی کے نو منتخب وزیراعلی’ جواں عزم علی امین گنڈاپور 2013ء سے 2018ء تک خیبر پختونخوا کے وزیر ریونیو رہے اور انہوں نے چند ماہ ہی میں پورے صوبے کے پٹوار سسٹم کو ٹھیک کرنا شروع کر دیا تھا۔ علی امین گنڈاپور کی وزارت کے دور میں پٹواری پیسے لینے سے کانپتے تھے نو منتخب وزیر اعلیٰ کے پی کے نے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے اپنی پارٹی بیانیہ کو پیش نظر رکھا اور کہا کہ وہ عمران خان کے توقعات پراور اعتماد پر پورا اتریں گے انہوں نے خطاب کے آغاز پر ایوان میں موجودپرٹی اراکین اسمبلی سے کرپشن کے خلاف حلف لیا کہ نہ وہ خودکرپشن کریں گے نہ کسی کو کرپشن کرنے دیں گے یہ خوش آئندہ امر ہے کہ ہمارے ملک میں شاید پہلی بار کرپشن کے خلاف کسی راہنما نے اپنی پارٹی کے منتخب اراکین سے کرپشن نہ کرنے کا وعدہ لیا یہ المیہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن اور رشوت کا دورہ ہے اور ملک میں روزانہ ایک اندازے کے مطابق 20 ارب سے زائد کرپشن کی جاتی ہے اس کے سد باب کے لیے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں شاید یہ کہ کرپشن کو ناگزیر سمجھ لیا گیا ہے اور ہر کسی نے ذہنی طور پر کرپشن کو قبول کر لیا گیا ہے اور کرپشن کے اگے پوری قوم بے بس نظر آتی ہے علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے قومی اثاثوں اور معدنیات کو قومی امانت قرار دےکران کی حفاظت کرنے کا عہد کیا اور معدنیات کو عوام کے مفادات میں استعمال کرنے کا تہیہ کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھی انہوں نے مصمم ارادے کا اظہار کیا انہوں نے صوبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے صوبے میں محاصل اضافے کرنے کا بھی کہا صوبے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی پر انہوں نے زور دیاخیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ منتخب ھونے کے بعد علی امین گنڈاپور نے اپنے پہلے خطاب مین جارحانہ انداز اختیار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے پر انتخاب اور کامیابی عمران خان کی مرہون منت ہے۔اس موقع پر انہوں نے الٹی میٹم دیا ہے کہ کہ ان کی پارٹی کے کارکنان کے خلاف مقدمات ایک ہفتے کے اندر اندر ختم کی جائے ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جائیں
نو منتخب وزیرِ اعلیٰ نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ کمیشن بنا کر عمران خان کے خلاف مقدمات اور 9. مئی کے واقعات کی تحقیقات کرے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ صوبے میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی کی اجازت نہیں ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے بہت سے مسائل ہیں تاہم دہشت گردی کا خاتمہ ان کی پہلی ترجیح ہوگی لیکن ایک سوال بدستور موجود ہے کہ آیا وہ اپنے روایتی سیاسی حریف وفاقی حکومت سے خوشگوار اور بہتر تعلقات استوار کر سکیں گے ؟اسی طرح وہ اپنے دیگر تینوں وزراءاعلی’ کے ساتھ کیا اشتراک عمل اور اعتماد سازی کی فضا قائم کر سکیں گے ؟ حالانکہ وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں اور پی ٹی ائی کے مابین شدید ترین اختلافات ہیں اور اعتماد سازی کا فقدان ہے اسی طرح کیا وہ پاک افغان طویل سرحد کو محفوظ بنانے میں کوئی موثر کردار ادا کر سکیں گے سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ،منافع خوری اور خصوصاً مہنگائی پر کیسے قابو پایا جا سکے گا مافیا کو لگام دینا چاروں صوبائی حکومتوں کے لیے بدستور ایک بہت بڑا چیلنج ہے یہ بھی یاد رہے کہ وزیراعلی’ علی امین گنڈاپور کے والد محترم میجر امین گنڈا پور کا پس منظر بھی اسٹیبلشمنٹ سے ہے اور انہوں نے اپنی سیاست کا اغاز مسلم لیگ سے کیا تھا
حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام آنے کی بجائے محاذ آرائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے نفرت و تقسیم بڑھنے سے اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے ملک بدستور سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے ملکی سالمیت اور بقاءکے پیش نظر اور ملک کو آگے چلانے کے لیے چاروں صوبائی حکومتوں کو ڈلیور کرنا ہوگا اورعوام کو ریلیف دینا ہوگا وفاق کو مضبوط کرنے کے لیے صوبوں میں ہم آہنگی اور انٹیگریشن لازم وملزوم ہے قومی یکجہتی اور سالمیت کے لئے پارلیمان مضبوط اور فعال بنانے کی ضرورت ہے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ کی ضرورت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے کہ سیاسی معاملات سڑکوں کی بجائے پارلیمان میں مل بیٹھ کر حل کیے جائیں اور محاذ آرائی کی سیاست ختم کر کے مفاہمتی سیاست کو رواج جائے جس سے جمہوری کلچر کو فروغ ملے گا جمہوریت کو بھی تقویت ملے گی اور ملک خداد پاکستان کو پائیدار استحکام نصیب ہوگا "انشاء اللہ العزیز "!