سید عاطف ندیمکالمز

جرمنی کے بدترین دور بمقابلہ پاکستان

75 لاکھ شہری ہلاک ہو گئے جرمنی کے 114 چھوٹے بڑے شہر تباہ ہو گئے ملک کی 20 فیصد عمارتیں زمین بوس ہو گئیں زراعت 65 فیصد کم ہو گئی بجلی بند تھی

1945 میں جب پاکستان بن رہا تھا جرمنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو ہٹلر نے خودکشی کر لی جرمنی کی فوج ختم ہو گئی ملک مشرقی جرمنی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ 75 لاکھ شہری ہلاک ہو گئے جرمنی کے 114 چھوٹے بڑے شہر تباہ ہو گئے ملک کی 20 فیصد عمارتیں زمین بوس ہو گئیں زراعت 65 فیصد کم ہو گئی بجلی بند تھی‘ سڑکیں تباہ تھیں بندرگاہیں ناقابل استعمال تھیں۔ انڈسٹری صفر تھی کرنسی ختم ہو چکی تھی لوگ خرید و فروخت کے لئے بارٹر سسٹم پر مجبور تھے‘ چیزیں دے کر چیزیں لی جاتی تھیں۔ 1945ءسے لیکر 1955ءتک دس سال جرمنی کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ کیمپوں میں پناہ گزین رہے۔ 1962ءتک جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ دنیا کے 14 ممالک جرمنی کو امداد دیتے تھے اور سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان امداد دینے والے ملکوں میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل تھا ایوب خان کے دور میں پاکستان نے 20 سال کے لئے جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دئیے تھے اور جرمن چانسلر نے اس مہربانی پر حکومت پاکستان کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا وہ خط آج بھی وزارت خارجہ کے آرکائیو میں محفوظ ہے۔ 60 تک جرمنی کی حالت یہ تھی کہ جرمن حکومت نے پاکستان سے دس ہزار ہنرمند مانگے لیکن پاکستان نے اپنے ورکرز جرمنی بھجوانے سے انکار کر دیا۔ جرمنی نے اس کے بعد ترکی سے درخواست کی ترکی کو جرمنی پر ترس آ گیا۔ ترکی کے لوگ جرمنی کی مدد کے لئے وہاں پہنچے چنانچہ آج بھی جرمنی میں تیس لاکھ ترک موجود ہیں۔ 50 سال قبل جرمنی کی صورتحال یہ تھی لیکن کیا صورتحال ہے۔ آج جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے اور ہم دنیا میں معاشی لحاظ سے دنیا میں 41 ویں نمبر پر ہیں۔ جرمنی کا GDP 3400 بلین ڈالر ہے جبکہ ہماری جی ڈی پی صرف 271 بلین ڈالر ہے جرمنی کی سالانہ برآمدات 2100 ارب ڈالر ہے جبکہ ہماری برآمدات صرف 20 ارب ڈالر ہے اور تو اور بنگلہ کی برآمدات ہم سے زیادہ 25 ارب ڈالر ہیں اور کرنسی بھی ہم سے بڑھ چکی ہے جرمنی کے زر مبادلہ کے ذخائر 203 بلین ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 21 بلین ڈالر ہیں۔ جرمنی کی فی کس آمدنی 41178 ڈالر ہے پاکستان کی فی کس آمدنی 1434 ڈالر ہے آپ تصور کریں 50 سال پہلے ہم نے جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دیا تھا جبکہ آج جرمنی روزانہ 12 کروڑ روپے کی پیپر پن بنا رہا ہے وہ کہاں ہیں ہم کہاں ہیں ہم یہاں کیوں ہیں اس کی وجہ جرمنی کے حکمرانوں کی سادگی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے میں ایک واقعہ سناتا ہوں جو کہ بہت مشہور ہے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل یورپ کے دو بڑے صدور سے سرکاری بات چیت کر رہی تھیں ان کے سامنے یورپ کے دو بڑے صدور بیٹھے تھے یہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی اور دوسرے یونان کے صدر جارج تھے لیکن اس سرکاری وزٹ کے دوران جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے اپنے ہاتھ سے تھرماس سے کافی نکال کر انہیں پیش کی اور میز پر صرف چند بسکٹ اور جوس کے ڈبے پڑے تھے۔
قومیں ان رویوں سے ترقی کرتی ہیں حکمران اگر ایسی سادگی اختیار کر لیں تو جرمنی جیسا پتھر کے زمانے میں گیا ہوا ملک صرف پچاس سال میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن جاتا ہے اور اگر حکمران یہ رویے اختیار نہ کریں تو قرضے دینے والے ملک پاکستان بن جاتے ہیں پاکستان کا یہ حال ایک دن میں نہیں ہو گیا ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ خرچوں سے کون واقف نہیں ہے چند دن پہلے وزیراعظم کا گوادر میں صرف ناشتے کا بل 35لاکھ روپے بنا تھا دوسرے ملکوں میں ہمارے حکمران قرضے لینے جاتے ہیں اور کروڑوں روپے شاہ خرچیوں میں اڑا دیتے ہیں 2015 میں امریکہ میں نواز شریف نے دس لاکھ روپے فی گھنٹہ پر جہاز کرائے پر لیا امریکہ کے اندر سفر کرنے کے لئے اور کچھ غیر ملکی صحافی کہتے ہیں کہ پاکستانی حکمران قرض لینے اس طرح شان و شوکت سے آتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ وہ قرضہ لینے نہیں بلکہ ہمیں قرضہ دینے آئے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button