حیدر جاوید سیدکالمز

ذوالفقار علی بھٹو ۔ فوجی آمریت کا مقتول…. حیدر جاوید سید

ایوب خان کی کابینہ میں مختلف وزارتوں میں صلاحیتوں کے مظاہرے کے بعد وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوئے اور یہی وزارت ان کے لئے عالمی شہرت’ لیاقت اور دانش کے اعتراف کے دروازے کھول گئی

4اپریل 1979ء کا دن پاکستان کی تاریخ کے چند سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہی دن ہے جب عالمی سامراجی قوتوں نے پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے توسط سے ایک منتخب وزیر اعظم اور 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکوا دیا۔ 45 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان میں آباد مختلف قومیتوں کے زمین زادے اس نابغہ عصر دانشور سیاستدان کو نہیں بھول سکے جس نے پاکستانی سیاست کے نئے دور کی بنیاد رکھی اور عوام کو اظہار رائے کے ساتھ اپنے ووٹوں کے ذریعے قیادت منتخب کرنے کا حق دلوایا۔
ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو انسان تھے ولی کامل یا آسمانی اوتار ہر گز نہیں۔ اجتماعی شعور سے عبارت ان کی سامراج دشمن اور عوام دوست سیاست سے کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے اس ملک کے زمین زادوں کو بالا دست طبقات اور عالمی سامراج کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔
سکندر مرزا کی کابینہ میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے شامل ہو کر وہ عملی سیاست کے میدان میں اترے۔ بعد ازاں ایوب خان کی کابینہ میں مختلف وزارتوں میں صلاحیتوں کے مظاہرے کے بعد وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوئے اور یہی وزارت ان کے لئے عالمی شہرت’ لیاقت اور دانش کے اعتراف کے دروازے کھول گئی۔ یہ بھی بجا ہے کہ بھٹو صاحب ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے مگر کیا فقط اس لکیر کو پیٹنے کا ثواب کمانا ضروری ہے یا یہ دیکھنا کہ اپنے عصر کے معروضی حالات کی بنا پر جب وہ ایوب خان سے الگ ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے ایک ترقی پسند جماعت کی بنیاد رکھی قابل ذکر ہے؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ سیاست ارتقائی عمل کا حصہ ہے بھٹو اس عمل میں پروان چڑھے اور پھر ایک مرحلہ پر انہوں نے زمین زادوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا شعوری فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے جو دوست ان پر سقوط مشرقی پاکستان کی ذمہ داری تھوپتے ہیں ان دوستوں کے فکری و سیاسی باوا آدم جنرل ضیاء الحق اس ملک پر گیارہ برس سے کچھ اوپر اقتدار پر قابض رہے۔
بھٹو سے جنرل ضیاء اور ان کے حواریوں (اس میں ان کی بی ٹیم جماعت اسلامی بھی شامل ہے) کی نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جو لوگ بھٹو کی پھانسی والے دن حلوے کی دیگیں تقسیم کر سکتے ہیں انہیں اگر سقوط مشرقی پاکستان میں بھٹو کے کردار کا رتی برابر بھی ثبوت مل جاتا تو وہ قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں پھانسی چڑھانے کی بجائے غداری کے مقدمے میں نشان عبرت بنا دیتے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھٹو سے جرنیل شاہی’ رجعت پسندوں اور ان کے عالمی سرپرست امریکہ کی نفرت ہر کس و ناکس پر عیاں ہے۔ وطنی محبت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تیسری دنیا کے استحصالی طبقات کے خلاف محکوموں کو متحد کرنے اور مسلم دنیا کے وسائل مسلم دنیا کی تعمیر و ترقی کے لئے بروئے کار لانے کا تصور دینے والے بھٹو انسانیت اور امن و ترقی کے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔
بھٹو صاحب کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ 1973ء کا آئین’ ایٹمی پروگرام ( اس ایٹمی پروگرام پر کچھ تحفظات بھی یقیناً رہے اور ہیں ) ’ اسلامی دنیا کا اتحاد’ مسلم دنیا کے وسائل کو مسلمانوں کی سماجی تعلیمی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی سوچ’ اسلامی بنک کے قیام کی کوشش’ پاکستان کے اندر تعمیر و ترقی کے نئے دور کی بنیاد’ سامراج دشمنی پر مبنی عوامی سیاست’ سوویت یونین سے پچھلی پاکستانی حکومتوں کے برعکس بہتر تعلقات کا قیام’ خطے میں امریکی اجارہ داری کے کھیل میں مہرے کے طور پر شرکت سے انکار ہی وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے جرنیل مافیا کے ساتھ مقامی رجعت پسند اور ان کے سرپرست اقتدار میں آنے کے پہلے دن سے ہی ان کے خون کے پیاسے تھے۔
آج کس کو یاد ہے کہ بھٹو صاحب کے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں عالمگیر انقلاب اسلامی کی علمبردار جماعت اسلامی نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی تصویر والا پوسٹر شائع کروا کے ملک بھر میں چسپاں کر وا یا تھا۔ پوسٹر پر جلی حروف میں لکھا تھا ”مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟” یہ پوسٹر بھٹو کے خلاف یو ڈی ایف کی سول نا فرمانی کی تحریک کے دوران راتوں رات لگایا گیا تھا۔
بلا شبہ بھٹو صاحب سے سیاسی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن ان غلطیوں کا تجزیہ اور چیز ہے کردار کشی اور بات۔
پاکستانی سیاست کے وہ دس بارہ سال جن میں بھٹو پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں آئے انہیں اقتدار ملا اور پھر پھانسی چڑھا دئیے گئے بہت اہم ہیں۔
بدقسمتی سے ان دس بارہ برسوں پر تحقیقی انداز میں بہت کم لکھا گیا البتہ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور آمریت میں ان کی کردار کشی کا ہر ہتھکنڈہ آزمایا گیا جس نے انہیں جتنی بڑی گالی دی فوجی آمر کے دربار میں اتنا ہی بلند منصب حاصل کیا۔
ان ساری باتوں اور پروپیگنڈے کے باوجود وہ آج بھی اپنے عصری شعور کے ساتھ اس دھرتی کے زمین زادوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
آج قابل غور بات یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی بھٹو کی سیاسی فہم اور سامراج دشمنی کو رہنما اصول بناتی ہے یا عصری سیاست کے تقاضوں کے مطابق پارٹی کو ایک نجی کمپنی کے طور پر چلایا جاتا ہے؟۔
بھٹو پھانسی چڑھے ان کے ایک صاحبزادے کو زہر دے کر قتل کیا گیا دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کے مہروں نے گھر کے باہر گولیوں سے بھون دیا ان کی جواں عزم صاحبزادی بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر مار دی گئیں۔
اس کے باوجود زمین زادوں کے دلوں میں ان کی محبت موجود ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین زادے یہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو ان میں سے تھے اور باہر والوں نے انہیں پھانسی پر چڑھوایا۔ کاش پیپلز پارٹی بھٹو کے افکار کی حقیقی وارث بننے کا کردار اپنا سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button