حیدر جاوید سیدکالمز

گرما گرم سیاسی و سماجی خبریں…..حیدر جاوید سید

ہماری دانست میں یہ تین مثالیں کافی شافی ہیں ان لوگوں کے لئے جن کے خیال میں سیاست میں مستقل دوستیاں و دشمنیاں ہوتی ہیں یا یہ کہ سیاسی اختلافات کفرواسلام کی جنگ ہوتے ہیں ۔

بڑی دلچسپ صورتحال ہے دو تین نسلوں تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی محبت کو حب الوطنی ہی نہیں بلکہ ایمان کے دوسرے رکن کے طور پر پیش کرنے والے آجکل اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ 2018ء کے باجوہ فیض جھرلو انتخابی نتائج کو عوام کا سونامی قرار دینے والے 2024ء کے انتخابی نتائج کو سونامی چوری ہوجانے کا نام دے رہے ہیں۔
ڈی چوک کے کنٹینر پر عمران خان چادر کو دوپٹہ بناکر محمود اچکزئی کا تمسخر اڑاتے تھے لیکن اب وہی محمودخان اچکزئی اس حکومت مخالف گرینڈ الائنس کے سربراہ ہیں جو پی ٹی آئی کی تحریک پر قائم ہوا۔
ہماری دانست میں یہ تین مثالیں کافی شافی ہیں ان لوگوں کے لئے جن کے خیال میں سیاست میں مستقل دوستیاں و دشمنیاں ہوتی ہیں یا یہ کہ سیاسی اختلافات کفرواسلام کی جنگ ہوتے ہیں ۔
آدمی، گروہ، قبیلے، جماعتیں اور قومیں مشاہدات و تجربات سے سیکھتے ہیں۔ جلد یا چند برس مزید کھجل ہونے کے بعد وہ بھی سیکھ جائیں گے جو آج مخالفین کے خلاف نفرت کے ہمالیہ پر کھڑے ہیں۔
میں آپ کو ایک مثال اور عرض کئے دیتا ہوں، پشاور ہائیکورٹ کو پی ٹی آئی کے لئے محفوظ ’’سرائے‘‘ بنادینے و الے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں تقرری کے لئے خود کو نظرانداز کئے جانے پر ایک جذباتی خط لکھا نوتشکیل شدہ "انجمن محبانِ آزاد عدلیہ” کے حامی انصافی اور یوٹیوبرز اسے لے اڑے۔ خوب اودھم مچایا۔ پھر جب پتہ چلا کہ سنیارٹی کے حوالے سے درست بات نہیں کی گئی خط میں تو سب کو سانپ سونگھ گیا کیونکہ موصوف ہائی کورٹس کے ججوں میں سنیارٹی میں 36ویں نمبر پر ہیں۔
جھوٹ بولتے ہوئے جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنا اسی کو کہتے ہیں۔
کچھ لوگ طنز فرماتے ہیں کہ تم عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف لکھتے ہو۔ بجا ہے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کے حق میں لکھنے بولنے والے ان کے نزدیک مادر زاد ولی ہیں۔ مارکیٹ میں دستیاب خبروں اور معروضی حالات پر ہی لکھا جاتا ہے لکھنے والوں میں سے ہر شخص اپنی فہم کے مطابق لکھتا ہے۔ اس لئے طنز بازوں کو صبر سے کام لینا چاہیے۔
ان دنوں ملک میں دو طرح کے خطوط کی بڑی دھوم ہے۔ ایک تو وہ خط ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 عدد جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا ہے۔ یہ خط الزام در الزام والی ایک کتھا ہے۔ خط لکھنے والے 6 میں سے 5 جج 2018ء کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں "لائے گئے” تھے ان 5 جج صاحبان کی سیاسی قربتوں اور ترجیحات پر مٹی ڈالے بغیر بات ہونی چاہیے یہاں درجن بھر سے زائد ان مقدمات کا ذکر کیا جاسکتا ہے جو ان کی عدالتوں میں سماعت کے لئے آئے ان کے ریمارکس اور فیصلوں پر دادرسی پانے والوں نے مسرت کا اظہار کیا تو کچھ حلقوں نے تحفظات بھی ظاہر کئے۔
دوسرے وہ خطوط ہیں جنہیں دھمکی آمیز خطوط کہا جارہا ہے یہ پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کو موصول ہوئے پھر سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹسوں سمیت پانچ پانچ ججوں کو ملے اب سنا ہے کہ وزیراعظم اور پنجاب کی وزیراعلیٰ کو بھی ایسے خطوط بھجوائے گئے ہیں یہ مبینہ دھمکی آمیز خطوط راولپنڈی سے پوسٹ کئے گئے یعنی راولپنڈی کے دو الگ الگ ڈاکخانوں سے تحقیقات جاری ہیں کب تک جاری و ساری رہیں گی تحقیقات اس بارے پیشگی کچھ کہنا ممکن نہیں، دیکھو اور انتظار کرو والی پالیسی اچھی رہے گی۔
ان سارے رولوں گولوں کے بیچوں بیچ خیبر ٹی وی کے پروگرام میں انکشاف ہوا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنی کابینہ سمیت کور کمانڈر ہائوس گئے وہاں صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی منعقد ہوا اور ’’صلاح مشورے‘‘ بھی ہوئے۔ اس دھماکہ خیز انکشاف کے دو دن بعد پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ خیبر پختونخوا کی کابینہ کور کمانڈر ہائوس ضرور گئی لیکن اجلاس کے لئے نہیں بلکہ افطاری کے لئے اور یہ کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کابینہ کے ہمراہ نہیں تھے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ ٹی وی پروگرام کے ’’چلتر‘‘ میزبان ان سے یہ ضرور دریافت کرتے کہ سپہر ساڑھے چار بجے کون سی افطاری ہوتی ہے۔ افطار ڈنر یا افطاری کچھ بھی ہو اس کے لئے کہاں روزہ دار دو گھنٹے پہلے میزبان کے درِ دولت پر حاضر ہوجاتے ہیں؟
ثانیاً رئوف حسن کی یہ بات درست نہیں کہ وزیراعلیٰ کابینہ کے ہمراہ کور کمانڈر کی افطاری میں شریک نہیں ہوئے۔
ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کے ارکان کی کور کمانڈر ہائوس تشریف آوری سے لگ بھگ 15 منٹ قبل کور کمانڈر ہائوس پہنچ چکے تھے۔ جس کا دل چاہے وہ کور کمانڈر ہائوس کے انٹری رجسٹر سے تصدیق کرلے۔
سادہ سی بات ہے کہ صوبائی کابینہ کا کور کمانڈر ہائوس جانا افطاری یا اجلاس یا پھر دونوں کاموں کے لئے اس میں "برائی” کیا ہے خیبر پختونخوا کے معروضی حالات اور بالخصوص دہشت گردی کے حالیہ بدترین واقعات کے بعد اس اقدام سے امن دشمنوں کو پیغام جائے گا کہ صوبے میں امن و امان کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہیں۔
چلیں سیاسی موضوعات سے آنکھ بچاکر سماجی معاملات پر بات کرلیتے ہیں۔ رمضان المبارک کے علاوہ بھی یہاں بچوں اوربچیوں سے جنسی تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن حالیہ دنوں (ایام رمضان المبارک) میں دو افسوسناک واقعات ایسے ہوئے کہ ان پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے
پہلا واقعہ تاندلیانوالہ ضلع فیصل آباد میں ہوا اس بدترین واقعہ میں ملوث مولوی کو بچانے کے لئے شہید علامہ احسان الٰہی ظہیر کے فرزند ابتسام الٰہی ظہیر نے جرگہ بازی کی انہوں نے اپنے بااعتماد رفیق اور واقعہ میں ملوث مولوی کو چھڑالیا لیکن اس پر انہیں سوشل میڈیا پر جس طرح آڑے ہاتھوں لیا گیا اس پر وہ نہ صرف غضب ناک ہوئے بلکہ احتجاج کرنے والوں کو دھمکیاں دینے پر اتر آئے
جبکہ واقعہ میں ملوث مولوی ابوبکر صدیق معاویہ نے تو باقاعدہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی مذموم کوشش کی۔ اس طرزعمل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولوی صاحبان اپنے مفاد کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔
اس واقعہ کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ پنجاب پولیس نے تاندلیانوالہ واقعہ میں پنچایت گیری اور اس کی بنیاد پر ملزم کو ایف آئی آر سے ڈسچارج کئے جانے کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسرا افسوسناک واقعہ ضلع مظفر گڑھ کے قصبے سنانواں کے قریبی علاقے کی مسجد میں رونما ہوا جہاں 13 سالہ حسنین معاویہ نامی بچے سے جوکہ اعتکاف میں بیٹھا ہوا تھا، اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تنویر نامی شخص نے خانہ خدا ( مسجد ) کے اندر جنسی زیادتی کی۔ دونوں واقعات پر احتجاج کرنے اور ملزموں کے خلاف توہین مذہب و مقدس مقام کا پرچہ درج کرنے والوں کو ملحد یا مخالف فرقے کے لوگ کہہ کر صورتحال کی سنگین میں کمی نہیں لائی جاسکتی
بلکہ معاشرے کی اخلاق سازی کے دعویدار مذہبی رہنمائوں پیش نماز وغیرہ کو سوچناچاہئے کہ وہ اپنے فرائض کی بجاآوری میں ناکام کیوں رہے۔
ایک اور دلچسپ مگر افسوسناک واقعہ بھی حالیہ دنوں میں ضلع لیہ میں پیش آیا جہاں ایک درزی (ٹیلر ماسٹر) کی دکان سے درجن بھر سوٹ چوری کرنے والے چور نے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اعتکاف میں بیٹھ جانے کو ترجیح دی۔
یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو سے اس کی شناخت ہوگئی اور موصوف کو مسجد سے گرفتار کرلیا گیا۔
درندگی، اخلاقی جرائم اور چوری وغیرہ کی واردات کے بعد مذہب و عقیدے اور مقدس مقام کے پیچھے چھپنے کی اس روش کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ سماج سدھاری کے لئے بلند ہوتی آوازوں کو لادین عناصر کا شور کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button