رمضان اور کورونا: برطانیہ کی مسلم کونسل کی مسلمانوں کے لیے رمضان کے حوالے سے ہدایات
[ad_1]
برطانیہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم مسلم کونسل آف بریٹین (ایم سی بی) نے لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے دوران آنے والے ماہ صیام یعنی رمضان میں لاکھوں لوگوں کے لیے رہنما اصول جاری کیا ہے۔
ان میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کا رمضان جو اس ہفتے کے آخر میں شروع ہو رہا ہے وہ ‘کووڈ 19 کی وبا کے دوران بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے لیے یکسر مختلف تجربہ ہوگا۔’
جاری لاک ڈاؤن کے دوران گھر سے باہر اجتماعی عبادات نہیں ہوں گی، مساجد میں تراویح کی نماز نہیں ہو گی اور افطار پارٹیاں یا دوستوں اور رشتہ داروں کی بڑی دعوتیں نہیں ہوں گی۔
اس کے بجائے ایم سی بی نے متبادل کے طور پر ویڈیو چیٹ کا استعمال کر کے اپنے پیاروں اور رشتہ داروں کے ساتھ آن لائن ورچوئل افطار کا مشورہ دیا ہے اور اس حوالے سے رہنمائی بھی کی ہے۔
پاکستان میں مذہبی اجتماعات پر پابندی تنازع کا شکار
کورونا وائرس مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی حائل
کورونا وائرس مذہبی تہواروں پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے؟
کورونا وائرس: وہ مسلمان جو ہندوؤں کی آخری رسومات ادا کرتا ہے
انڈیا میں مذہب کی بنیاد پر کورونا کے مریضوں میں تفریق کی شکایات
اس ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ اپنے افطار کا پہلے سے منصوبہ بنائيں تاکہ خریداری کے لیے بار بار دکانوں پر نہ جانا پڑے۔
اس میں یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ سحری میں زیادہ توانائی اور دیر سے تحلیل ہونے والی غذائیں کھائیں تاکہ دن بھر روزہ کی حالت میں توانائی کی سطح برقرار رہے۔
روزہ بعض اوقات بد مزاجی کا باعث بن سکتا ہے، بطور خاص اس صورت میں جب کوئی رات کے زیادہ تر حصے میں جاگتا رہا ہو اور پھر صبح صبح اس سے کام شروع کرنے کی امید رکھی جائے۔
ایم سی بی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ ‘اپنے کام کی جگہ اور اپنے فرائض کا خیال رکھیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ صبر و تحمل کے مظاہرے کے ساتھ نیک سلوک کریں۔’
لیکن اس کے ساتھ متنبہ بھی کیا گیا ہے کہ روزہ رکھنے والے ملازم کو بغیر کسی واجب کاروباری وجہ کے اوقات میں لچیلا پن نہ دکھانے والے مالکان غیر قانونی فعل اور بالواسطہ امتیاز کے مرتکب ہوں گے۔
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ پوری دنیا کے قریب دو ارب مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
کسی بھی عام سال میں یہ مہینہ اجتماعی عبادات، دن کے روزے، رات کی دعوتوں، سماجی ہم آہنگی اور میل جول کے ساتھ زبردست سخاوت اور خیر خیرات کا مہینہ ہے کیونکہ مسلمان اس مبارک مہینے میں اپنے ایمان کو تازہ کرتا ہے۔
مغربی ممالک میں رہنے والوں کے لیے عام حالات میں دن کے وقت کھانا پینا ترک کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا جبکہ باقی آبادی عوامی طور پر کیفے اور ریستورانوں میں کھاتی پیتی ہوں۔
لیکن اس سال یہ بہت مختلف ہوگا۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے سڑکوں اور بازاروں کی یہ للچانے والی رونقیں نہیں ہوں گی کیونکہ لوگ گھروں میں محدود ہوں گے۔
اس کے باوجود رمضان کے مہینے میں زیادہ تر مسلمانوں کے لیے انفرادی تنہائی مکمل طور پر غیر وجدانی ہو سکتی ہے۔ عام طور پر پوری برادری اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ افطار کے بعد دیر رات ایک دوسرے سے ملنے اور لطف اندوز ہونے کے لیے نکلتی ہے۔
لیکن اسلامی فقہ کے ماہر ڈاکٹر ایمن ال بداوی کا خیال ہے کہ اس کے باوجود رمضان المبارک کی روح زندہ رہے گی۔
انھوں نے کہا کہ ‘رمضان کی بہت سی مخصوص عبادات کو تنہائی کے دوران برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
‘یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کے لیے اس کے روحانی پہلو میں معمول سے کم خلفشار کی وجہ سے اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
‘یقینی طور پر پابندیوں کے دوران اجتماعی اعمال کی کمی محسوس ہوگی لیکن اس میں تعاون کے لیے پہلے سے ہی بہت سے اقدام کیے جا رہے ہیں۔’
Source link
International Updates by Focus News