ساڈا چھیکڑی سلام قبول تھیوے…..حیدر جاوید سید
جو محسوس کررہا ہوں وہی پچھلے کچھ عرصے سے صاف گوئی سے عرض کررہا ہوں۔ عمر کی نقدی ختم ہونے کو ہے
دوست ناراض ہوتے ہیں چند دن قبل ’’سوجھل دھرتی واس‘‘ کی ادبی ثقافتی کانفرنس میں کی گئی گفتگو کے ایک جملے پر بھی بہت سارے دوستوں نے گرفت کی۔ ان کی محبت اور دعائوں کا شکرگزار ہوں۔
کڑوا سچ یہی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ امڑی حضور کے شہر ملتان کُل جہان میں آخری حاضری ہے۔ صحت دن بدن جس طرح ادویات کے آگے بھاگ رہی ہے اور حالت دل جو ہے سب مجھ فقیر پر عیاں ہے۔ میں مایوس آدمی تھا نہ ہوں، اپنی محنت مزدوری سے سفر حیات طے کیا کوئی ملال ہے نہ مایوسی۔
جو محسوس کررہا ہوں وہی پچھلے کچھ عرصے سے صاف گوئی سے عرض کررہا ہوں۔ عمر کی نقدی ختم ہونے کو ہے۔ ادھار کے سانسوں یا خیرات کے لمحوں کی ضرورت نہیں مزید جی کر ہم کر بھی کیا لیں گے۔
سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ ایک سچی سُچل عوامی جمہوریت کے جو خواب ہم نے اپنے ہم عصروں کی طرح دیکھے تھے ان کی تعبیر کیا ملتی خواب آنکھوں میں ٹوٹ گئے کرچیوں کے زخم بھرنے کو نہیں آتے ۔
سفر حیات کے اس موڑ پر جب چلنے کے لئے لاٹھی پکڑنی پڑی رہی ہے کبھی کبھی مضبوط ہاتھ کے سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی یہاں ہر کوئی اپنے مسائل میں گرفتار بلا ہے۔ دنیا آگے بڑھ گئی ہم پیچھے رہ گئے۔ بڑھ جانے والوں سے حسد ہے نہ پیچھے رہ جانے کا ملال۔
ہماری رفتار ہی یہی تھی۔ احتیاط بھی کی کہ سنبھل کر چلیں کہیں منہ کے بل نہ گرجائیں کیونکہ پھر لوگ سہارے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاتے بلکہ تماشائی بن جاتے ہیں۔ سو بہتر یہی ہے کہ آدمی تماشا نہ بنے۔
خدا سے اپنے جتنے بھی تعلقات رہے ان کے برتے پر یہی دعا کی کہ محتاجی نہ ہو۔ اب جبکہ لاٹھی کے علاوہ بھی سہارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے تو لگتا ہے دعا قبول ہونے والی ہے قبل اس کے کہ کوئی سہارا دے کر اٹھائے یا چلائے ہم سامان سفر باندھ کر چل دیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
اس دنیا سرائے میں ڈھیروں جی لئے محنت مزدوری سے عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ قلم مزدوری کرتے نصف صدی بیتالی۔ جس بات کو درست سمجھا اگر مگر کے بغیر عرض کردی جو غلط سمجھی اسے استقامت سے مسترد کردیا۔ میری بیٹی نے ایک دن مجھ سے سوال کیا تھا
’’بابا جانی قیدوبند، پولیس اور ایجنسیوں کا تشدد، بیروزگاری کے ماہ و سال ان سب پر کبھی دکھی نہیں ہوئے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بہتر ہوتا‘‘؟۔
عرض کیا
’’جانِ پدر!ہم نے سب کچھ اپنے حصے کا فرض سمجھ کر کیا فرض کی ادائیگی پر ملال کیسا؟ کوئی ملال ہے نہ محرومی کا احساس۔ وقت، دوستوں اور پڑھنے والوں نے بہت عزت دی۔ بابا کی جان!تم جب بھی کسی دستاویز پر ولدیت کے خانے میں ہمارا نام لکھو گی تمہیں ملال نہیں فخر محسوس ہوگا۔ تمہارے دادا حضور سے ہمیں زندگی بھر سیاسی اختلاف رہا پھر خاندانی عقیدے کی زنجیریں توڑنے پر دوریاں بڑھ گئیں۔ تب ہم یہی سوچتے تھے کہ آدمیوں کے جنگل میں اپنے عصری شعور کی سچائی کے ساتھ جینا بسا ہی اصل زندگی ہے‘‘۔
میں یہ سطور اپنی امڑی حضور کے شہر ملتان کُل جہان میں بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ اس ملتان کل جہان سے میری محبت یہ ہے کہ اگر مجھے واقعی سات جنم ملتے تو میں انہیں ملتان پر نچھاور کردیتا پھر بھی حق ادا نہ ہوتا۔
محبت بناوٹی نہیں ہوتی۔ ملتان سے عشق میرے خون میں شامل ہے کیوں نہ ہو میں فخر کے ساتھ دنیا کو بتاتا ہوں میں ملتانی ہوں اور وعظ والی سیدہ عاشو بی بیؒ کا بیٹا ہوں۔ ان دو حوالوں نے مجھے بے پناہ عزت دی۔ آج بھی جب کوئی ملتانی راہ چلتے ہوئے روک کر پوچھتا ہے آپ بی بی جیؒ کے بیٹے جاوید میاں ہیں؟ تو میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور سینہ فخر سے بھر جاتا ہے لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ آنکھوں کے نم ہونے اور سینے کے فخر سے بھرنے کے موسم ڈھل رہے ہیں۔
سانس مٹھی سے پھسل رہے ہیں۔ تمامی کے وقت سے آنکھیں چرانے یا بھاگنے کا فائدہ کیا۔ زندگی کا سفر پورا کرکے ہر ذی نفس ایک دن دنیا سرائے سے رخصت ہوتا ہے۔ کاروبار زندگی ہو یا دوسرے معاملات یہ کہاں رکتے ہیں۔ سب ویسا ہی ہے۔
بابا جان رخصت ہوئے زندگی کی گاڑی اپنی رفتار سے چلتی رہی۔ امڑی حضور کی قبر سینے میں بنی زندگی تب بھی نہیں رکی۔ چند ماہ میں دو بھائی اپنا پڑائو اٹھاگئے زندگی ویسی کی ویسی ہے ۔ سارے کاروبار اپنے حساب اور ترتیب سے چل رہے ہیں۔ ہم نہ ہوئے تو نہ اندھیرا ہوگا نہ کاروبار زندگی تھمے گا۔
سچ پوچھیں تو 65برس کے سفر حیات میں جو چاہا وہ ضرورت سے زیادہ ملا کبھی ایک گھر بھی بنایا تھابدقسمتی کہہ لیجئے وہ ایک فراڈیئے دوست کی بھینٹ چڑھ گیا بس اس کا دکھ کبھی کبھی ستاتا ہے کہ اگر فراڈ کر کے ملک چھوڑ کر بھاگ جانے والے دوست کی تحریری ضمانت نہ دی ہوتی تو بیٹی کے لئے چھت ضرور رہتی۔
وائے قسمت کے یہ دکھ خون رلاتا ہے لیکن اب کیا ہوسکتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں میری بیٹی جانتی ہے کہ اس کے بابا جانی نے عمر بھر محنت مشقت کی وہ بھی اپنے باپ کی طرح محنت مشقت کرکے سفر حیات طے کرے گی۔
خدا لگتی کہوں میں ان دنوں اپنی ہی نہیں کل جہان کی بیٹیوں کی خیر ، نیک نصیب، صحت و سلامتی اور علم و رزق میں فراوانی کی دعا کرتا ہوں۔ مجھے ہر بیٹی میں اپنی بیٹی کا عکس دیکھائی دیتا ہے۔ بے ساختہ دعا کے لئے لب ہلتے ہیں ہاتھ بلند ہوجاتے ہیں۔
مجھے ان سموں جب یہ احساس دوچند ہوا جارہا ہے کہ تمامی کی منزل تیزی سے قریب آرہی ہے بس ایک دکھ ہے وہ یہ کہ میں اپنی امڑی حضور اور اپنے جنم شہر ملتان اور ملتانیوں کی کوئی خدمت نہیں کرپایا۔ البتہ میں ملتان کو کبھی بھولا نہیں کبھی بھی کہیں بھی اور کسی بھی حال میں رہا ملتان میرے اندر بسا اور بس رہا ہے۔
ہم زندگی ڈھب سے اور ڈھنگ سے جی آئے۔ دوست بنائے، مولاؑ نے کرم کیا ایک سے بڑھ کر ایک اچھا دوست ملا۔ جی بھر کے کتابیں پڑھیں کاش قبرمیں کوئی روشن دان ہوسکتا میں دوستوں سے عرض کرتا "یارو فاتحہ کے لئے آئو نہ آئو بس کوئی نئی کتاب اس روشن دان سے قبر میں ڈالنے کے لئے ضرور آتے رہنا اتنا تو میرا تم پر حق بنتا ہے” ۔
میرے عزیزو اور پیارو!آج کے کالم پر ناراضگی اورڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں۔ جو محسوس کررہا ہوں لفظ لفظ سطر سطر عرض کردیا۔ ان سموں مجھے امام علیؑ یاد آرہے ہیں۔ ارشاد ہوا ’’غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو‘‘۔ لاکھ لاکھ شکر ہے دوستوں کی دولت ہے اور بے حساب ہے۔
حسین بن منصور حلاجؒ نے کہا تھا ’’آدمی کو پڑھتے رہنا چاہیے ہر لفظ نئے معنی کے ساتھ نئی دنیا سے متعارف کراتا ہے‘‘۔
ہم نے پڑھنے میں بخیلی نہیں کی۔ یادوں کی زنبیل سے نکلی ایک یادوں بھری بات نے دستک دی۔ 2017ء والی مردم شماری کے وقت جب میں نے مردم شماری والے سے کہا کہ میں شیعہ سنی نہیں بلکہ بوترابیؑ و بو ذریؓ ہوں تو ان دونوں نے ایک بار مجھے دیکھا پھر لائبریری پر نگاہ ڈالی مردم شماری والے معلم (استاد) کے ہمراہ موجود فوجی جوان نے بے ساختہ کہا ’’شاہ ہوراں کجھ زیادہ پڑھ لیا وے‘‘۔
میں اس کے تبصرے پر ان کے رخصت ہونے کے بہت دیر بعد تک ہنستا رہا ایک مرحلہ پر میری اہلیہ لائبریری کا دروازہ کھول کر اندر آئیں اور بولی ’’حیدر جاوید خیریت تو ہے؟‘‘۔
میں نے انہیں فوجی جوان کا نقد تبصرہ بتایا پھر وہ میرے ساتھ مل کر دیر تلک ہنستی رہیں۔
حرف آخر یہی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ وسیب، ملتان اور ملتانیوں کی آخری زیارت کا پھیرا ہے۔ کاش کہ ایسا ہو کہ سفر حیات کے تمام ہونے پر زندگی بھر رزق کی ہجرتوں سے بندھے شہر شہر گھومتے رہنے والے مجھ بدنصیب ملتانی کو قبر کی مٹی ملتان کی نصیب ہو۔