
پاکستان کراچی(نمائندہ وائس آف جرمنی): مریم امیر کی دنیا اُس وقت برباد ہو گئی جب ان کے 22 سالہ بیٹے نے نشے میں دھت حالت میں بیوی کو طلاق کی دھمکی دی۔ اس کے الفاظ نے 20 سال پہلے کی دردناک یادیں تازہ کر دیں جب ان کے شوہر نے بھی اسی طرح منشیات کے استعمال کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا تھا۔
امیر نے اپنے دو بیٹوں کی پرورش کے لیے تنہا کئی برسوں تک مشکلات کا مقابلہ کیا لیکن اب تاریخ خود کو دہراتی نظر آتی ہے، صرف کردار بدل گئے ہیں۔ اور ان مصائب کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے: کراچی میں ان کے ساحلی گاؤں میں منشیات کی بے دریغ فراہمی۔
تقریباً 70,000 کی آبادی پر مشتمل ریڑھی گوٹھ بنیادی طور پر نسلی سندھی ماہی گیروں کا مسکن ہے اور یہ 13ویں صدی کا ہے۔ ساحلی گاؤں حالیہ عشروں میں منشیات فروشوں کا مرکز بن گیا ہے جہاں سینکڑوں نشئی اکثر خستہ حال گلیوں میں قطار در قطار نظر آتے ہیں۔
40 سالہ امیر نے ایک آہ بھرتے ہوئے اور اپنی سلائی مشین کو روکتے ہوئے کہا جو ان تمام سالوں میں ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ رہی ہے۔ "اس گاؤں میں منشیات کو ختم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے بیٹوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔”
وہ لمحہ یاد کرتے ہوئے ان کی آواز غم سے بھرؐا گئی جب انہیں ان کے شوہر نے چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، "صرف ان مردوں کی وجہ سے تمام خواتین کی زندگی تباہ ہو گئی ہے۔ وہ یہ لت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔”
ریڑھی گوٹھ میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح نے سماجی کارکن نواز علی کو پریشان کر دیا جنہوں نے ایک نشئی سے طلاق شدہ خاتون سے شادی کی۔ اس بات نے انہیں گاؤں کے تمام آٹھ محلوں میں دستی سروے کرنے پر آمادہ کیا جس سے بعض چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے۔
علی نے ہمارے نمائندہ کو بتایا، "میں نے ایک فہرست مرتب کی جس میں 850 طلاق شدہخواتین کے نام شامل تھے۔” انہوں نے مزید کہا: "اس محلے میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں آپ کو طلاق یافتہ خواتین نہ ملیں۔”
علی نے بتایا کہ ایک حالیہ واقعہ میں ایک 14 سالہ لڑکی نے خودکشی کر لی جب اس کے والدین نے اسے ایک ایسے لڑکے سے شادی کرنے پر مجبور کیا جو منشیات کا عادی تھا۔
وائس آف جرمنی کے نمائندہ نےساحلی قصبے میں 20 کے قریب خواتین کا انٹرویو کیا جنہیں ان کے منشیات کے عادی شوہروں نے طلاق دے دی تھی۔
"میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا۔ وہ بھی عادی تھا۔” 29 سالہ شاہدہ نے کہا جو صرف ایک ہی نام سے جانی جاتی ہیں۔
ان کے شوہر نے گذشتہ ہفتے انہیں طلاق دے دی اور اپنی نوزائیدہ بیٹی کو ان کی گود میں چھوڑ گیا۔ شاہدہ کے بوڑھے والد اب ان کے اخراجات برداشت کرتے ہیں جو روزی کمانے کے لیے کیکڑے اور دیگر سمندری غذا پکڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "بچوں کے اخراجات کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے۔”
گذشتہ اتوار کو ان خواتین کے انٹرویو کے دوران وائس آف جرمنی نے ریڑھی گوٹھ کی گلیوں میں کھلے عام منشیات کا لین دین ہوتا دیکھا لیکن عادی افراد میں سے کوئی بھی علاقے میں منشیات کی تقسیم کے نیٹ ورک کے بارے میں بات کرنے پر راضی نہیں ہوا۔
ریڑھی گوٹھ میں سندھ پولیس کے زیرِ انتظام منشیات کی بحالی کے مرکز کا انتظام کرنے والے ایک پولیس افسر مشتاق احمد نے کہا، "یہاں یہ پورا علاقہ منشیات سے متأثرہ ہے۔ میں جہاں بھی بیٹھوں، وہ منشیات کا اڈہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اردگرد نظر ڈالیں تو آپ کو ہر جگہ منشیات فروخت ہوتی نظر آئیں گی۔”
احمد کے مطابق پولیس کی متواتر کارروائیاں منشیات فروشوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر قانون نافذ کرنے والوں کو دیکھتے ہی تنگ گلیوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کاشف آفتاب احمد عباسی نے کہا، کراچی کے ضلع ملیر میں جہاں ریڑھی گوٹھ واقع ہے، منشیات فروشوں کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے جون میں منشیات کی مختلف وارداتوں کا حوالہ دیا جن میں 704 گرام آئس، 3.41 کلو گرام ہیروئن، 52.189 کلو گرام چرس اور 51 بوتلیں شراب کی ضبطی شامل ہیں جن میں مجرمان کے خلاف مقدمات درج ہیں۔
اس کے باوجود منشیات فروشوں نے سڑکوں پر قبضہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے علاقے کے لوگ بالخصوص خواتین متأثر ہو رہی ہیں۔
40 سے زائد عمر کی ایک سماجی کارکن حرمت محمد رفیق نے اپنے ہی بیٹے کے عادی بننے کے بعد منشیات کی لعنت کے خلاف مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے کہا، "ہم اسے گھر میں نہیں بناتے، کوئی باہر سے سپلائی کر رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی فراہم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منشیات کی لت بڑھ رہی ہے۔”
رفیق نے کہا کہ منشیات کے علاوہ کم عمری کی شادیاں بھی علاقے میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔
انہوں نے محلے کی خواتین کے ساتھ ایک مہم کے منصوبے پر تبادلۂ خیال کرنے کے بعد زور دیا، "بچوں کی کم عمری میں شادی نہ کریں۔ پہلے انہیں بڑا ہونے دیں، پھر ان کی شادیوں کا بندوبست کریں۔ اگر وہ ابھی [کم عمری میں] شادی کر لیتے ہیں تو پانچ سے چھے ماہ کے اندر ان کی طلاق ہو جاتی ہے۔”
رفیق کے مطابق جو مرد منشیات کے عادی تھے، اپنی بیویوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔
انہوں نے بیان کیا، "شوہر سگریٹ پی کر واپس آتا ہے، دھواں چھوڑتا ہے اور بیوی سے پوچھتا ہے کہ کھانا ہے یا نہیں۔وہ کہتی ہے نہیں۔ آدمی اسے لات مارتا ہے اور کہتا ہے، ‘میں تمہیں طلاق دیتا ہوں’۔ تو اب وہ غریب عورت کیا کرے؟”