پلڑا بھاری ہو تو پزیرائی ملتی ہے !…..ناصف اعوان
اس نے موقع غنیمت جان کر حکومت پر شرائط کی چابک لہرا رکھی ہے لہذا حکومت ان پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہے ۔اب جب وہ کہتا ہے کہ سبھی سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے تو حکومت دھڑا دھڑ انہیں بازار میں لے آئی ہے
ملکی سیاسی صورت حال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے تبدیل ہی نہیں گمبھیر بھی ہوتی جا رہی ہے جس سے عوام میں مایوسی کا پیدا ہونا فطری ہے کیونکہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف باوجود اس کے کہ ملکی معیشت کی حالت ابتر ہے سے متعلق ایک میز پر نہیں بیٹھ رہیں ۔
اُدھر آئی ایم ایف ہے کہ اس نے موقع غنیمت جان کر حکومت پر شرائط کی چابک لہرا رکھی ہے لہذا حکومت ان پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہے ۔اب جب وہ کہتا ہے کہ سبھی سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے تو حکومت دھڑا دھڑ انہیں بازار میں لے آئی ہے۔ خریداروں کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ انہیں اونے پونے داموں حاصل کر لیں اس طرح تو معیشت نہیں سنبھل سکتی کیونکہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ تمام سٹیک ہولڈر مل کر ایسی پالیسیاں وضع کرتے جو ہمارے قومی خزانے کو تقویت پہنچاتیں جس سے لوگوں کو سہولتیں فراہم کی جا سکتیں مگر ایسا نہیں ہوا یا نہیں کیا گیا شاید اس کی وجہ سیاسی عدم استحکام تھی لہذا اب اداروں کی لوٹ سیل لگ چکی ہے جس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں؟ فرض کیا اگر حکومت اداروں کو نہیں بیچتی تو آئی ایم ایف اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیتا ہے لہذا کیا کیا جائے اور کیا نہ کیاجائے جان آئی شکنجے اندر مگر ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ۔حکومتی سیاستدان جن کے پاس وسیع اختیارات ہیں اپنے مخالفین کے کس بل نکال رہے ہیں خصوصاً پی ٹی آئی کو انہوں نے خوب گھمانا شروع کر رکھا ہے ۔ ایسا طرز عمل اس کے دور حکومت میں بھی دیکھا گیا مگر اب اس کا حساب برابر ہو چکا ہے لہذا سیاسی "لُکن میٹی“ کو ختم کیا جانا چاہیے۔ جو کسی طور بھی ملک کے لئے سود مند نہیں ۔ائی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک یہ بھی شرط ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرے اور باقاعدہ ایک ہدف مقرر کرے مگر حکومت اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے ٹیکس دینا ہے وہ تعاون نہیں کر رہے وہ ٹیکس چوری کر رہے ہیں آپ بڑے بڑے تجارتی مراکز میں چلے جائیں ‘ ریستورانوں اور دیگر کھانے پینے کی دکانوں وغیرہ کے مالکان آپ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے نظر آئیں گے کہ وہ جو رسید دیں گے (سب نہیں) پی او ایس والی نہیں ہو گی فرضی یعنی کچی رسید ہو گی جس کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ جو ایف بی آ ر کو لین دین سے متعلق ظاہر کیا جاتا ہے وہ ‘ وہ نہیں ہوتا جو اصل میں ہو رہا ہوتا ہے یوں وہ ٹیکس چوری میں ملوث ہوتے ہیں ۔حکومت اب ہر دکان یا بڑے تجارتی مراکز پر اپنا اہلکار تعینات نہیں کر سکتی مگر آئی ایم ایف اس صورت حال سے بے خبر ہے ؟
بہرحال ملک میں سیاسی غیر یقینی نے ہر پاکستانی کو پریشان کر دیا ہے اور دُور دُور تک معاملات ٹھیک ہوتے دکھائی نہیں دے رہے حزب اختلاف بھی بپھری ہوئی ہے مگر اسے ناگوار صورتحال کا بھی سامنا ہے جو شاید اس لئے ہے کہ وہ اپنے اندر لچک پیدا نہیں کر رہی جبکہ سیاست کاری میں کبھی جھکنا اور کبھی اکڑنا پڑتا ہے مگر وہ مسلسل سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے لہذا حکومت بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اس کی ”خیریت“ دریافت کر رہی ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہی ہے ۔ جی ہاں ! امریکی کانگریس کے ساٹھ ارکان نے صدر امریکا کو عمران خان اور انسانی حقوق بارے ایک خط لکھا تو ہماری بیدار و مستعد حکومت نے ایک سو ساٹھ اراکین اسمبلی کے دستخطوں سے ایک خط لکھ مارا دیکھتے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے ویسے امریکی صدر موجودہ و آئندہ کو ہماری صورت حال کا بخوبی علم ہے لہذا اسے بتانے یا سمجھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ؟
یہ ہے ہماری سیاست کا حال جو عوام سے تعلق خاطر قائم کرنے کے بجائے ملکوں سے رابطہ کرنے میں اپنی بقا سمجھ رہی ہے ۔ہم اپنے ایک کالم میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ کسی بھی ملک کو ہمارے اندرونی معاملات میں دلچسپی و مداخلت کا حق حاصل نہیں مگر یہاں شروع دن سے ایسا ہوتا آیا ہے ہماری حکومتیں بنتی بگرتی ہی مغرب کی آشیر باد سے رہی ہیں لہذا اب اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی کسی سے شکوہ کیا جا سکتا ہے ۔جب تک ہم اپنے معاشی مسائل اور جھگڑے خود نہیں حل کرتے تب تک دوسروں کو موقع ملتا رہےگا پھر جب ہمیں ان کے ذیلی ادارے قرضہ و فنڈز دیتے ہیں تو وہ ہمیں ڈکٹیٹ کرنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں لہذا معیشت سے لیکر سیاست تک کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا تاکہ ہم خود کفالت کی منزل حاصل کر سکیں پھر ہمیں کوئی بھی ڈکٹیٹ نہیں کر سکے گا۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے ارباب اختیار خود کفیل ہونا چاہیں گے ؟ ہمیں نہیں لگتا کیونکہ انہیں امدادوں اور قرضوں کی عادت پڑ چکی ہے لہذا خود کفالت کی منزل ہم سے کوسوں دور جا چکی ہے لیکن وہ قریب آسکتی ہے ۔ ہم مایوس نہیں اگر سات آٹھ دہائیاں یا صدی پہلے کی دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے ملکوں کے حالات ہم سے بھی بد تر تھے ۔چین کو ہی دیکھ لیں ایک افیمی قوم تھی جسے چیئرمین ماؤ نے ایسا بیدار کیا کہ انقلاب آگیا اب وہی چین ہے جو سپر پاور بن چکا ہے اس کی اقتصادیات انتہائی مضبوط ہو چکی ہے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم لوگ بھی انقلاب برپا کر سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ ہمیں کوئی مخلص قیادت میسر آ جائے جو مہذب افراد کے ساتھ لے جا کر کھڑا کر دے ابھی تک یہ ”واقعہ“ اس لئے رونما نہیں ہو سکا کہ ہم نے سیاست کو خدمت کے طور سے نہیں لیا اس کے ذریعے ایک دوسرے کی ٹانگیں ہی کھینچی گئی ہیں رسوا ہی کیا گیا ہے ۔بدقسمتی دیکھیے ہم نے اپنے دوست ملکوں سے بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ انہیں ناراض کیا ہے کر رہے ہیں فقط اپنے مفادات کے لئے اپنی ذات کو لوریاں دے کر سلانے کے لئے لہذا ایسی روش اور ایسی سوچ ہمیشہ عوام کی پزیرائی سے محروم رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی کہاں جا رہا ہے اور کوئی کدھر کا رخ کر رہا ہے تاکہ وہاں سے ہمدردیاں سمیٹ سکے جبکہ عوام جدھر ہوں اس کا ہی پلڑا دیکھا جاتا ہے دوسروں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے !