زندہ بندے کے چھوٹے چھوٹے دُکھ ….حیدر جاوید سید
ان میں سے ایک عزیز اکثر مجھ سے کہتے رہتے ہیں بوڑھے ہوگئے ہو اب امریکہ چلے جاو بیٹی کے پاس گاہے کچھ اور بھی کہتے رہتے ہیں جواباً ہم بھی فقرہ چست کرکے حساب برابر کرلیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ میں امریکہ کیوں جاوں ؟
زندہ آدمی بھی کیا چیز ہے موسم حالات ” زبان دانیاں ” طنزوتضحیک ہی کیا بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے زندگی یہی ہے میرے ایک نہیں چند عزیز جو آجکل اپنی تیسری سیاسی محبت میں گرفتار ہیں جوانی کی پہلی محبت کے مقابلہ میں تیسرے محبوب کیلئے پہلی دو محبتوں پر جوتا شماری کے ساتھ تبرے کا موقع ہاتھ سے کسی لمحے نہیں جانے دیتے
ان میں سے ایک عزیز اکثر مجھ سے کہتے رہتے ہیں بوڑھے ہوگئے ہو اب امریکہ چلے جاو بیٹی کے پاس گاہے کچھ اور بھی کہتے رہتے ہیں جواباً ہم بھی فقرہ چست کرکے حساب برابر کرلیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ میں امریکہ کیوں جاوں ؟
جانا ہوتا تو 2006 میں جب دوسری اہلیہ دوبیٹیوں اور مجھے امریکہ کیلئے شہریتی ویزا ملا تھا تب چلا جاتا لیکن نہیں گیا تب میں ایک بڑے اردو اخبار میں اہم ادارتی منصب پر فائز تھا نہ جانے کی یہ ایک وجہ تھی کچھ جذباتی وجوہات بھی رہیں
مگر اہم ترین وجہ یہ تھی کہ 9 برس کی عمر میں گھر کے سخت گیر مذہبی ماحول اور نماز نہ پڑھنے پر ہونے والی ڈنڈوں کی برسات کے ردِعمل میں گھر سے بھاگ جانے والے بچے نے جو آج 66 برس سے 42 دن کی دوری پر کھڑا ہے اپنی محنت و مشقت اور آپا سیدہ فیروزہ خاتون نقوی رح کی تربیت کی چھاوں میں اپنی دنیا آپ بنائی ایسی دنیا جسمیں خاندانی شناخت کے علاوہ سب کچھ اپنی محنت و مشقت کی کمائی ہے
سچ یہ ہے کہ کبھی امریکہ نہ جانے کا ملال ہوتا ہے تو دل کو دو باتیں سمجھاتا ہوں ، اس ملک میں اپنی محنت سے جو کچھ حاصل کیا اس کا حق دیانتداری سے ادا کرتے رہنا چاہئے ثانیاً یہاں میرے دوست ہیں کریم و محبوب دوست نصف صدی میں بنائی لائبریری ہے اچھے بُرے بلکہ بدترین حالات جن میں بیروزگاری بھی شامل ہے استقامت سے ساتھ نبھاتی چلی آنے والی خاتون اول ( پہلی اہلیہ ) ہیں سب سے بڑھ کر یہاں میرے جنم شہر ملتان میں میرے والدین اور پُرکھوں کی قبریں ہیں
یہیں میں نے چلنا پھرنا جینا بسنا سیکھا اسی زمین پر عوامی جمہوریت کے خواب دیکھے جو تعبیروں سے پہلے چوری ہوگئے اور خواب دیکھنے پر عذاب بھی بھگتے نئے ماحول میں تو سب کچھ نیا ہوگا
خیر تمہید طویل ہوئی گزشتہ روز اسلام آباد لیٹریری فیسٹیول ( کتاب میلہ ) کے حوالے سے ایک طنزیہ پوسٹ فیس بک وال پر لکھی دوتین عزیز ہی اس پوسٹ کا مقصد سمجھ پائے باقی احباب تلوار نیزے بھالے خنجر سنبھالے کودے اور بے حساب و بے نقط سنائیں چنددوستوں نے بات کو سمجھے بنا پنجابیوں کو ان کی خوش خوراکی کی بناپر آڑے ہاتھوں لیا ۔
میری طنزیہ پوسٹ پچھلے ایک برس سے پھیلائے جانے والے اس جھوٹ کا ردعمل تھی جسے آگے بڑھانے میں فیس بکی دانشور ایک دوسرے پر سبقت لیجاتے دیکھائی دیتے رہے وہ جھوٹ تھا لاہور سمیت پنجاب میں لگنے والے کتاب میلوں میں لوگ کتابیں کم خریدتے ہیں انہیں کتابوں سے شغف ہی نہیں
دوماہ قبل ایک نیا جھوٹ مارکیٹنگ سے خوب پھیلا وہ یہ کہ ” لاہور کے ایک کالج میں منعقدہ کتاب میلے میں کتابیں 37 فروخت ہوئیں مگر پیزے و برگر اور شوارمے ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئے ”
اس جھوٹ نے سوشل میڈیا پر وہ سماں باندھا کہ کچھ نہ پوچھیں اس سے قبل فروری میں لاہور میں منعقد ہونے والے کتاب میلے کے حوالے بھی منفی باتیں پھیلائی گئیں دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران ایک دعویٰ سامنے آیا وہ یہ کہ تربت میں منعقدہ کتاب میلے میں 37 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں اس دعوے کو پرلگے اور مختلف الخیال قوم پرستوں اور فیس بکی دانشوروں نے آسمان سرپر اٹھالیا لیکن کسی نے تربت کی آبادی پر غور نہیں کیا
ساعت بھر کیلئے رُکیئے یہ بتائیے کہ کھانے پینے کی چیزیں کس شہر کے لوگوں کو مرغوب نہیں کیا پشاور کی نمک منڈی کے ہوٹلوں اور کراچی کے بزنس روڈ کی فوڈ شاپس پر کتابیں فروخت ہونے لگی ہیں ؟
ایسا نہیں ہے تو پھر لاہور کے پنجابیوں پر سنگ زنی کیوں ؟ مجھے یاد ہے فروری میں لاہور کے کتاب میلے میں لاہور اور مضافات کے لوگوں کو چھوڑیئے تین ساڑھے تین سو کلومیٹر دور ملتان سے مختلف الخیال لوگ مشترکہ طور پر بسیں کرائے پر لے کر اس کتاب میلے میں شرکت کیلئے آئے تھے بہت سارے ملتانی دوستوں سے اس کتاب میلے میں ملاقاتیں ہوئیں بھائی جان پروفیسر منیر ابنِ رزمی چیچہ وطنی سے آتے ہیں لاہور کے کتاب میلوں میں یہ ایک مثال ہے فقط
میں نے یکم اکتوبر سے اب تک 18 کتابیں خریدی ہیں 7 کتابیں مجھے دوستوں نے بھجوائیں 6 کتب پیارے دانشور بلال حسن بھٹی نے تحفتاً عنایت کیں رواں برس کے آغاز سے اب تک مجموعی طور پر 67 کتابیں خریدیں 20 کتابیں دوستوں نے بھجوائیں جب کوئی نئی کتاب پڑھتا ہوں اس پر لکھتا ضرور ہوں حالانکہ زیادہ تر کتابیں خریدی ہوئی ہوتی ہیں تبصرہ وغیرہ کی کوئی اخلاقی پابندی نہیں ہوتی ایک کڑواسچ یہ بھی ہے کہ
کتابوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں
مثلاً تارا چند کی چار جلدوں پر مشتمل
” تاریخ تحریکِ آزادی ہند ” کی مجموعی قیمت 7380 روپے ہے گزشتہ روز بھی عرض کیا تھا کہ 315 صفحات کی کتاب کی قیمت 3500 روپے ہے چاہتے ہوئے بھی تاریخ کے حوالے سے یاسرجواد کی حال ہی میں ترجمہ کی گئی تین کتابیں نہیں خرید سکا کیونکہ بارہ ہزار روپے کی تین جلدوں پر ٹکا رعایت نہیں ہے ہمارے ہاں یقیناً کتابیں بہت مہنگی ہیں لیکن پڑھنے والے خریدتے ہیں ہم سے مجبور طالبعلم بھی کپڑوں لتوں کی ضرورت پر کتاب خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں
مندرجہ بالا معروضات کا مقصد فقط یہ ہے کہ پیارے عزیزو اگر کسی مختصر یا طویل تحریر کا سیاق و سباق سمجھ میں نہ آئے تو لشکریوں کی طرح چڑھ نہ دوڑا کرو
آخری سے پہلی بات یہ ہے کہ میں ایک ادنیٰ سا طالبعلم ہوں کرائے کا سپاہی نہیں اس لئے طنزوتضحیک سے دکھی ہوتا ہوں اور ہاں میں ملک چھوڑ کر امریکہ نہیں جارہا بونس کی باقی ماندہ زندگی اسٹیبلشمنٹ اور آر ٹی ایس سسٹم کی کوکھ سے جنم لینے والی مسیلمہ برانڈ مخلوق سے لڑتے بھڑتے یہیں بسر کروں گا اور آخری بات یہ ہے کہ اسلام آباد کتاب میلہ پر لکھی طنزیہ پوسٹ اور پھر ناسمجھ دوستوں کیلئے لکھی تحریر پر ہمارے پیارے ترقی پسند دانشور ادیب اور صحافی محمد عامر حسینی نے ایک مکتوب لکھا مکتوب انہوں نے اپنی فیس بک وال پر بھی شیئر کیا میں ان کے شکریہ کے ساتھ وہ مکتوب کالم کا حصہ بنا رہا ہوں آپ بھی پڑھ لیجے عامر حسینی لکھتے ہیں
محترم حیدر جاوید سید صاحب،
السلام علیکم۔
آپ کا حالیہ پیغام پڑھا جس میں آپ نے اسلام آباد بک فیئر کے بارے میں اپنے طنزیہ خیالات کا ذکر کیا اور اس پر ہونے والی ناپسندیدہ تنقید کا جواب دیا۔ میرے محترم بزرگ اور عزیز دوست، آپ کی یہ باتیں دل کو چھو گئیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں طنز و مزاح کی قدر کم ہی لوگوں کو آتی ہے، وہاں یوں سچ اور خلوص کے ساتھ بات کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے۔ اور یہ حوصلہ ہمیشہ آپ کے پاس رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ محض ایک صحافی نہیں بلکہ ایک صاحبِ فکر، اصولوں کے پکے انسان اور دانشور کے طور پر بھی اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔
آپ کا صحافتی اور ادبی سفر، جو دہائیوں پر محیط ہے، آپ کی حق گوئی، عوام سے محبت، اور اس دھرتی کے لیے خلوص کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنی تحریروں کے ذریعے آپ نے محض خبروں کا حال نہیں سنایا بلکہ سوچنے کی دعوت دی، سوال اٹھائے اور معاشرتی دوغلے پن پر ضرب لگائی۔ آپ کی تحریروں نے لوگوں کو نہ صرف آگاہی دی بلکہ سوچنے پر مجبور کیا۔ آپ کی یہ خدمات صرف صحافت تک محدود نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے فکری اور اخلاقی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں آپ کا کردار نمایاں ہے۔
اس ضمن میں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کی کئی خصوصیات اٹھارویں صدی کے جرمن معاشرتی حالات سے مشابہت رکھتی ہیں۔ اُس زمانے میں جرمن اخبارات (جنہیں آج کے اردو اخبارات سمجھ لیجیے) کھلے عام عقل و فلسفہ کی مذمت میں مصروف تھے اور جو بھی چرچ کی مذہبی پیشوائیت پر سوال اٹھاتا تھا، اسے معاشرتی دشمن قرار دیا جاتا تھا۔ اس حد تک کہ فلسفے کو تاریکی کی علامت بنا دیا گیا تھا، اور سماج اس قدر ادبی زوال کا شکار ہو چکا تھا کہ طنز و مزاح کے انداز میں کہی گئی کسی بات کو بھی بغض و عناد کے تیر کا نشانہ بنا لیتا تھا۔ جرمن دائیں بازو کے درباری ادیبوں اور صحافیوں کا زور نوجوان کارل مارکس جیسے بائیں بازو کے فلسفیوں کو رد کرنے میں لگا رہتا تھا۔ یہی صورتحال ہمیں آج بھی دکھائی دیتی ہے، جب کسی سنجیدہ اور بے باک قلمکار پر، جو کسی ایونٹ یا مشہور شخصیات سے قطع نظر اپنی خودی اور دیانت کے ساتھ لکھتا ہے، سطحی الزامات لگائے جاتے ہیں۔
آج بھی ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے کہ کسی صحافی یا ادیب کو اس وقت تک "سلیبریٹی” نہیں مانا جاتا جب تک وہ مین سٹریم میڈیا پر متواتر بولتا یا لکھتا نظر نہ آئے، اور سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ثقافتی ادارے اسے پروموٹ نہ کریں۔ جو قلمکار ان طاقتور مراکز سے آزاد ہو، اور ان کے تسلط کو چیلنج کرے، اسے "باشعور” یا "نارمل” تک ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے اور اسے "حسد کرنے والا” اور ناکام کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔
بحیثیت آپ کا دوست اور قدر دان، یہ بات مجھے افسوس میں مبتلا کرتی ہے کہ بعض لوگوں نے آپ کی طنزیہ بات کو اس کی اصل روح میں سمجھنے کے بجائے منفی رنگ دیا۔ طنز و مزاح ایک آئینہ ہے جس میں معاشرتی سچائیوں کا عکس جھلکتا ہے، مگر اس کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے بھی آنکھیں اور دل چاہیے۔ آپ کی نیت اور آپ کا انداز وہی سمجھ سکتا ہے جو اس گہرائی کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس ردعمل نے مجھے صرف یہی یاد دلایا کہ آپ کی آواز منفرد ہے، اور وہ کبھی بھی سطحی باتوں اور وقتی تنقید سے دب نہیں سکتی۔
حیدر صاحب، آپ نے کبھی بھی کسی ادبی تقریب یا ایوارڈ سے اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا۔ آپ کا اصل مقام ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو آپ کی تحریروں سے متاثر ہوتے ہیں، جو آپ کے الفاظ کی قدر کرتے ہیں۔ حسد اور تنگ نظری—ایسی بیماریاں آپ جیسے انسان کے دل میں جگہ نہیں پا سکتیں، جس نے اپنی زندگی دوسروں کی بہتری کے لئے وقف کر رکھی ہو، اور جس کی بلندی ایسے معمولی جذبات سے کہیں بلند ہو۔ یہ آپ کی عاجزی اور بڑائی کی علامت ہے کہ آپ خود کو ہمیشہ ایک طالب علم سمجھتے ہیں۔
یہ جان لیجیے کہ آپ ہمارے لیے نہایت محترم اور قابلِ فخر ہیں۔ آپ کا سچائی کے ساتھ جڑا ہوا تعلق، آپ کی عوام سے محبت، اور آپ کی ادبی خدمات کسی بھی دعوت یا پروگرام سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ آپ کا کام اور آپ کی شخصیت خود اپنی گواہی دیتے ہیں۔ اس دور میں، جہاں خاموش رہنا آسان ہے، آپ وہ باتیں کہتے ہیں جو واقعی اہم ہیں، اور اس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
اللہ آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ خوش رکھے اور آپ کو مزید کامیابیوں سے نوازے۔
بہترین احترام اور قدر کے ساتھ،
آپ کا بھائی
محمد عامر حسینی