یمن ’امن روڈ میپ‘ کے لیے زیادہ انتظار نہیں کر سکتا، اقوام متحدہ
ایسا بحران ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتا، ایک وقت آتا ہے جب فریقین کسی بہتر نتیجے کی توقع کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہینس گرنڈبرگ نے کہا ہے کہ ’یمن کے متحارب فریق اور جنگ زدہ عوام امن کے لیے کسی روڈمیپ کا زیادہ عرصہ انتظار نہیں کر سکتے کیونکہ ملک دوبارہ جنگ کی جانب جا سکتا ہے۔‘
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گرنڈبرگ نے کہا کہ ’غریب ترین ملک یمن جہاں ملک کے بیشتر حصے پر ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کا کنٹرول ہے، کے تنازع کا حل اب بھی ممکن ہے۔‘
منامہ ڈائیلاگ کانفرنس میں دیے گئے انٹرویو میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کہا ’غزہ اسرائیل جنگ سے پیدا ہونے والے علاقائی بحران کی وجہ سے کسی روڈمیپ پر عملدرآمد کے امکانات تاخیر کا شکار ہیں تاہم فریقین سے بات چیت جاری ہے۔‘
ایسا بحران ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتا، ایک وقت آتا ہے جب فریقین کسی بہتر نتیجے کی توقع کرتے ہیں۔
یمن میں مارچ 2015 سے جنگ جاری ہے جب سعودی قیادت میں اتحادی فوجیوں نے یمن سے حوثیوں کو بے دخل کرنے کے لیے مہم شروع کی جنہوں نے چند ماہ قبل یمنی دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ کی ثالثی میں یمن میں اپریل 2022 میں جنگ بندی ہوئی جس کے بعد لڑائی میں کمی دیکھی گئی اور دسمبر 2023 تک فریقین امن عمل کے لیے پُرعزم دکھائی دیئے۔
رواں سال جنوری میں بحیرہ احمر کی اہم تجارتی گزرگاہ پر حملوں کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے حوثی اہداف پر حملوں نے مذاکراتی عمل کو ’انتہائی پیچیدہ‘ بنا دیا۔
گرنڈبرگ نے تسلیم کیا کہ امن روڈ میپ پر آگے بڑھنا فی الحال ممکن نہیں کیونکہ اس پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا تاہم یمن کے اندرونی تنازع کا حل اب بھی ممکن ہے۔
امن روڈمیپ کا مقصد انسانی اور اقتصادی وعدوں پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ مستقل جنگ بندی اور سیاسی عمل کی طرف اقدامات کرنا ہے۔
یمن کی موجودہ صورتحال میں ملک کی دو تہائی آبادی امداد پر انحصار کرتی ہے اور انسانی المیے کی نمائندگی کر رہی ہے۔
یمنی عوام کے صبر کی انتہا ہے وہ ایک طویل اور صبر آزما عرصے سے امن کے منتظر ہیں۔ ہر کوئی اس جنگی صورتحال کے خاتمے کا خواہش مند ہے۔