”گیم کا ٹیمپو سلو “ کون کرے گا ۔۔؟….. طیبہ بخاری
پاکستان میں بھی ہلکے ”جھٹکے “ محسوس کیے جا رہے ہیں ۔۔۔دعا کریں ”آفٹر شاکس “ نہ آئیں اور زیادہ نقصان نہ ہو ۔۔۔
دنیا بھر میں ”سیاسی زلزلے“ آ رہے ہیں ، ریکٹرسکیل پر شدت حیران کن ، گہرائی اقتدار کے ایوانوں کوہلا رہی ہے ۔۔۔
بڑے بڑے برج الٹ چکے ۔۔۔۔
افغانستان ،امریکہ ، بنگلہ دیش اور اب شام میں ”سیاسی زلزلے “ نے ہلاکر رکھ دیا ۔۔۔۔
مشرق وسطیٰ میں فوجی اور سیاسی توازن میں بڑی تبدیلی کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں ۔۔۔
پاکستان میں بھی ہلکے ”جھٹکے “ محسوس کیے جا رہے ہیں ۔۔۔دعا کریں ”آفٹر شاکس “ نہ آئیں اور زیادہ نقصان نہ ہو ۔۔۔
” سیاسی بادشاہت“ کیخلاف نفرت جنم لے چکی ۔۔۔دعا کریں اس کی عمر میں اضافہ نہ ہو۔
سوالات کا سلسلہ تھما نہیں، جاری ہے۔۔۔بہاﺅ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔
سوال لاشیں ملنے کا نہیں ۔۔۔غم وغصے کا ہے ۔۔۔اور وہ عوام میں ہے ۔۔۔اس کا ثبوت نہ مانگ بیٹھیے گا ۔۔۔اس غم وغصے کو کسی ہسپتال کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
کھلاڑی کا بلا رنز اُگل رہا ہو تو سمجھ دار ی اسی میں ہوتی ہے کہ ”گیم کا ٹیمپو سلو “ کیا جائے ۔۔۔
”سیاسی زلزلوں “ اورتخت الٹنے کا موسم ہے۔۔۔
عوام کی گھن گرج بڑھتی جا رہی ہے ۔۔۔
تبدیلی کے تھپیڑے ”آمریت کامزاج“ درست کر رہے ہیں۔
بات” فائنل کال“سے” سول نافرمانی کی کال“ تک جا پہنچی ہے ۔۔۔
جواب میں کہا جا رہا ہے ”تمہاری نافرمانی کی ایسی کی تیسی۔۔۔نافرمانی تو تمہارے خون کے اندر ہے۔۔۔ جو مرضی کرلو تمہاری دال نہیں گلنی۔۔۔ انتشار جہاں بھی ہوگا ہم اس کے سامنے کھڑے ہوں گے۔۔۔ جھوٹا بیانیہ بنایا جارہا ہے۔۔۔ لاشوں کی سیاست کی جارہی ہے ۔ ۔۔ تمہارے لوگ دم دبا کر بھاگے ہیں۔۔ 278 لاشیں گھر سے اکٹھی کریں“۔۔۔
ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر نے لکھا تھا کہ”ندامت، پشیمانی اور فکرمندی شاید سب سے زیادہ عام عناصر ہیں جن کے باعث ایک معاشرہ مایوسی، افسردگی اوربے چینی و پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے“۔۔۔ایسا لگتا ہے ندامت ، پشیمانی اور فکرمندی تینوں ہمارے معاشرے کو چھوڑ کر جا چکی ہیں یا ”نا معلوم مقام “ پر منتقل ہو چکی ہیں ۔ کروڑوں عوام مایوس ،ا فسردہ، بے چین ومایوس ہیں لیکن سیاسی سطح پر نہ تو کوئی نادم ہے ، نہ پشیمان اور نہ ہی فکرمند ۔۔۔وہ پڑھا لکھا طبقہ جو اب تک ملک چھوڑ کر نہیں گیا اور اس دیس میں ہی مرنا جینا چاہتا ہے”اب گھبرا گیا ہے “کہ سیاسی آگ کب تھمے گی ، نفرت کی آندھی کا زور کب ٹوٹے گا ۔ ۔۔۔سکون کب نصیب ہو گا ؟
اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ” علم طے کرتا ہے کہ کیا کہنا ہے۔۔۔مہارت طے کرتی ہے کیسے کہنا ہے ۔۔۔طرز عمل طے کرتا ہے کس قدر کہنا ہے ۔۔۔اور دانشمندی طے کرتی ہے کہ کہنا بھی ہے یا نہیں“۔
لیکن سیاسی سطح پر علم ، مہارت ، طرز عمل اور دانشمندی دور دور تک نظر نہیں آرہی ۔۔۔ابھی بھی ایک دوسرے کی ”ایسی کی تیسی“ پھیرنے والے بیانات داغے جا رہے ہیں ۔۔۔”پاگل “قرار دینے سے” مارنے“ تک کی سازشیں سامنے آ رہی ہیں ۔۔۔کسی کو ”تعویذ “ تو کسی کو ”گنڈا “ کہا جا رہا ہے۔۔۔کسی کو ”ہٹلر “ کا خطاب دیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر” گندکی ٹریفک “ یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہے۔۔۔”تیز رفتاری“ اسی طرح رہی تو ”حادثے کا خطرہ“ رہے گا ۔
مشہور مقولہ یاد آ گیاکہ ”بہادر مارے جاتے ہیں، ذہین پاگل ہو جاتے ہیں اور دنیا مطمئن بےوقوفوں سے بھری رہتی ہے“۔
ہمارے پاس کتنے اور کس قدر ”مطمئن بے وقوف “ ہیں ، نام لکھنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ آپ تلاش کر لیجیے
رہی بات ”ذہین افراد “ کی تو انہیں مشورے کی ضرورت نہیں ۔۔۔بس ایک گذارش ہے کہ”پاگل “ نہ بنیں ۔۔۔
کسی نے ٹھیک کہا تھا جہالت بڑی نعمت ہے،شعور آپ کو تکلیف میں ڈال دیتا ہے،اور یہ وہ تکلیف ہے جو عام سوچ والے کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔ ۔۔
عوام ہماری ہو یا کسی اور ملک کی دھیرے دھیرے سیاسی شعور آ رہا ہے ۔۔۔آج کا نوجوان بہت کچھ جانتا ہے ، بولتا ہے ،اس کی نظر میںشعور دینا بغاوت نہیں۔۔۔ نظریہ سمجھانا اکسانا نہیں۔۔۔حقائق بتانا جرم نہیں۔۔۔ راستہ دکھانا سازش نہیں۔۔۔خوف ختم کرنا غداری نہیں ۔۔۔
یہ مار پیٹ سے ڈر رہے ہیںنہ ٹیئرگیس سے ،ڈنڈوں سے نہ ہتھکنڈوں سے۔۔۔ یہ کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں ؟
آج کی نسل سوالات کے ”بہاﺅ“ میں یہ بھی پوچھتی ہے کہ ہر کوئی یہ کیوںکہتا ہے کہ ہم ”بقاء“ کی جنگ لڑ رہے ہیں یہ جنگ کس نے چھیڑی ۔۔۔کس کیخلاف لڑی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔سبھی لڑنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ، مخالف کون ہے۔۔۔ ہتھیار اور کمک کون فراہم کر رہا ہے۔۔ شکست کس کا مقدر بنے گی ۔۔؟
ابھی چند دن پہلے وطن عزیز میں ”سیاسی زلزلہ “آیا تھا ، ماہرین کے مطابق دوسرا آنے کو تیار ہے ۔۔۔قومی میڈیا سے سوشل میڈیا تک ”پیش گوئیاں “ کی جا رہی ہیں ۔
مذاکرات کرنیوالے ”ڈنڈا “ اٹھانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔۔۔
کہہ رہے ہیں ”اگر آپ نہیں مانتے تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ دباؤ آپ کا زیادہ ہے یا ہمارا، ہمارے چہروں کو آپ گندا کرنا چاہتے ہیں، ہمارا اور آپ کا سامنا اب ہوچکا ہے“۔۔۔
ماضی پر نظر رکھنے والے ”سیاسی طعنے “ دے رہے ہیں ۔۔۔کہہ رہے ہیں کہ گذشتہ ماہ (نومبر )کے آخری عشرے میں زبردستی کنٹینر ہٹائے گئے ، ایک گاڑی سیکیورٹی اہلکاروں پر چڑھائی گئی ۔۔۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا پہلے بھی ہو چکا ہے مہینہ اکتوبر کا تھاسن 2020ءتھا ، مقدمہ گوجرانوالہ میں ایک سیاسی اتحاد کے جلسے کے روز درج کیا گیا تھا ،ایف آئی آر میں کنٹینر ہٹانے اور سیکیورٹی اہلکاروں پر گاڑی چڑھانے کا الزام ہے، مقدمے میں 3 سیاسی رہنما بری ہو چکے ہیں۔
اس بارمقدموں کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔۔۔؟
یہ ”سیاسی طعنہ “ بھی دیا گیا کہ”لاڈلہ “ ایک نہیں ”دو “ ہیں ۔۔۔ایک ”نیا“ دوسرا ”پرانا “۔۔۔
مثال کے طور پر ایک لطیفہ بھی بھیجا
”گامے “نے اپنی2بیٹیوں کی دھوم دھام سے شادی کی۔ ایک کی مزارعوں کے گھر اور ایک کی کمہار کے گھر۔
کچھ عرصے بعد گاما اپنی دونوں بیٹیوں کو ملنے ان کے گھر گیا۔
پہلے مزارعوں کے ہاں بیاہی بیٹی کے گھر گیا اور بیٹی سے پوچھا آپ کے کیا حالات ہیں؟
بیٹی نے کہا، ابا جی دعا کریں بارشیں ہوں۔اگر بارشیں نہ ہوئیں تو فصل اچھی نہیں ہو گی اور ہم اجڑ جائیں گے۔
اس کے بعد گاما، کمہاروں کے گھر بیاہی بیٹی کو ملنے گیا۔ حالات پوچھنے پر بیٹی نے کہا کہ دعا کریں بارشیں نہ ہوں ورنہ جتنے برتن بنائے ہیں وہ سب ضائع ہو جائیں گے اور ہم اجڑ جائیں گے۔
گاما پریشان پریشان اپنے گھر واپس آ گیا۔ بیوی نے جب پریشانی کی وجہ پوچھی تو گاما ٹھنڈی آہ بھر کر بولا؛
”دووآں وچوں اک تے کنفرم اجڑے گی“۔
موجودہ حالات میں کس ”لاڈلے “نے اجڑنااور کس نے بچنا ہے ۔۔۔۔فیصلہ ہونا باقی ہے
آخر میں ایک دانشور کا جملہ ”کسی دوسرے کی تکلیف کو سمجھنا ہو تو آپکو اسی سمندر میں تیرنا چاہیے جس میں وہ ڈوب رہا ہو “ ۔۔۔۔عوام کس تکلیف سے دوچار ہیں اس کا اندازہ لگانا ہے تونمائندگی کے دعویداروں کو ”عوامی سمندر “ میں چھلانگ لگانی پڑے گی ، تیرنا آتا ہو گا تو بچ جائیں گے وگرنہ اللہ حافظ۔۔۔