پیر مشتاق رضویکالمز

جنوبی پنجاب سے ٹرینوں کی بندش کی بحالی ناگزیر ! …..۔پیر مشتاق رضوی

ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں گزشتہ چھ سات سالوں سے زائد اب کوئی ٹرین نہیں چلتی پنجاب سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں غریب مسافر ٹرین کی سستی سفری سہولت سے محروم ہیں بذریعہ ریلوے بین الصوبائی سماجی رابطہ منقطع ہو چکا ہے

یہ خبر خوش آئند ہے کہ پاکستان ریلوے نے 32 ارب کا منافع کمایا لیکن ایک عرصے سے متعدد ٹرینوں کی بندش سے جنوبی پنجاب، اندرون سنھ اور بلوچستان کے غریب عوام ریلوے کی سستی ٹرانسپورٹ سے محروم چلے آرہے ہیں مجودہ حکومت کے قیام عمل میں آنے کے وقت جب سردار اویس خان لغاری وفاقی وزیر ریلوے بنے تو ڈیرہ ڈویژن سے بند ٹرینوں کی بحالی کے سلسلے پیش رفت کا آغاز ہوا لیکن سردار اویس لغاری کی وزارت تبدیل کرنے کے ساتھ بند ٹرینوں کی بحالی کا معاملہ پھر ٹھپ کر دیا گیا اور یوں اس وسیب کے غریب عوام ریلوے کی سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں 1997ء سے براستہ راجن پور اب تک چار ٹرینیں بند ہو چکی ہیں بتایا جاتا ہے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں گزشتہ چھ سات سالوں سے زائد اب کوئی ٹرین نہیں چلتی پنجاب سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں غریب مسافر ٹرین کی سستی سفری سہولت سے محروم ہیں بذریعہ ریلوے بین الصوبائی سماجی رابطہ منقطع ہو چکا ہے جبکہ ڈیرہ غازی خان ،راجن پور تا جیک آباد کا ریلوے ٹریک ملک کی دفاعی اور معاشی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے محکمہ ریلوے کو بھی ایک ٹرین کی بندش سے سوا 15 کروڑ روپے کا سالانہ خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے ریلوے کے اربوں روپے کے اراضی اور اثاثے لاوارث اور غیر محفوظ ہو چکے ہیں قبضہ مافیا نے ریلوے کی اراضی اور عمارتوں پر قبضہ کر رکھا ہے راجن پور میں کمرشل مارکیٹیں بن چکی ہیں بتایا جاتا ہے کہ راجن پور ریلوے سٹیشن 1973ء میں قائم ہوا۔ 1997ء تک اس سٹیشن سے چار ریل گاڑیاں چلتن ایکسپریس (فیصل آباد تا کوئٹہ)، اباسین ایکسپریس (پشاور تا کوئٹہ)، خوشحال خان خٹک ایکسپریس (پشاور تا کراچی) اور پسنجر ایکسپریس (ملتان تا جیکب آباد) گزرتی تھیں اور چار مال گاڑیاں بھی چلتی تھیں ۔ 1997ء میں اباسین اور پسنجر بند کر دی گئیں۔ سلمان تونسوی ایکسپریس (راجن پورتا ملتان) کو ٹرانسپورٹ مافیا نے اس کے اغاز کے پہلے ہی دن بند کرادیا گیا تھا اس کے علاوہ انتہائی کامیاب سروس ہونے کے باوجود 20 جولائی 2010ء کو چلتن ایکسپریس بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند ہو گئی۔ اس طرح راجن پور ریلوے سٹیشن ویرانی کی طرف بڑھنے لگا۔ کرونا کی وباھ روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے تحت 22 مارچ 2020ء کو خوشحال خان خٹک ٹرین بند کر دی گئی تھی۔ اس سٹیشن سے ہر ماہ ہزاروں افراد مسافر ان ٹرینوں میں سفر کرتے تھے۔ راجن پور سٹیشن پر پانچ افراد پر مشتمل عملہ تعینات ہے۔ جب ٹرینیں زیادہ گزرتی تھیں تو عملہ بھی زیادہ تھا 25 اگست 2022ء میں سیلاب سے راجن پور کے قصبے فاضل پور میں دھندی سٹیشن کی 2.7 کلومیٹر ریلوے لائن تباہ گئی تھی۔ اس کی مرمت و بحالی تین ماہ قبل بعد خوشحال خان خٹک کوویڈ 19 کی وجہ سے بند ہوئی تھی۔ بعدازاں کوچز کی کمی ہو گئی جس کی وجہ سے ٹرین بحال نہ ہوسکی۔ سیلاب سے ٹوٹے ہوئے ٹریک کی مرمت میں بھی تاخیر ہوئی۔ چونکہ ٹریک مکمل ہو چکا ہے اس لیے امید تھی لیکن خوشحال خان خٹک ٹرین بحال نہ کی گی”۔ واضح رھے کہ راجن پور کے راستے ٹرینوں کی بندش سے جنوبی پنجاب اندرون سندھ اور بلوچستان کے لاکھوں غریب عوام ریل کی سستی اور محفوظ سفری سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں خصوصا” مزدور طبقے اور غریب طلبہ کو کراچی کوئٹہ پشاور اور لاہور جانے کے لیے بھاری مالی بوجھ برداشت کرنا پڑتے ہیں ٹرانسپورٹ مافیا نے مختلف روٹوں پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور آئے روز کرایہ میں من مانے اضافے کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے مزدور اور غریب لوگوں کا سفر کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے راجن پور سمیت ڈیرہ ڈویژن کے درجنوں خوبصورت تعمیر شدہ ریلوے اسٹیشن ویران اور کھنڈر بنے پڑے ہیں ریلوے اسٹیشن کی رہائشی کالونی میں جرائم پیشہ اور منشیات فروشوں _جرائم پیشہ عناصر نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں جبکہ چھوٹے مقامات پر متعدد ریلوے اسٹیشنز اور ریلوے کالونیوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے لوگ اسٹیشن کی عمارت کے دروازے کھڑکیاں اور اینٹیں تک اٹھا کر لے گئے ہیں راجن پور میں ریلوے اسٹیشن کی ڈسپنسری اور ریسٹ ہاؤس اور ریلوے کوارٹرز پر بااثر افراد قابض ہیں ریلوے اسٹیشن کے ایک گیٹ پر ٹیکسی کاروں ریلوے کے مال گودام گیٹ پر ٹرک مافیا کا قبضہ ہے تو دوسرے مین گیٹ پر ٹرانسپورٹ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے ریلوے اسٹیشن کی چار دیواری گرا کر دکانیں تعمیر کر دی گئی ہیں چوک الہ اباد اور ریلوے پھاٹک تک ریلوے راضی پر عرصہ دراز سے باقاعدہ طور پر کمرشل مارکیٹیں بن چکی ہیں عاقل پور روڈ پر ریلوے مال گودام کی رابطہ سڑک کے گیٹ پر بھی قبضہ کر کے دکانیں تعمیر کر دی گئی ہیں ریلوے اسٹیشن پر محدود تعداد میں ملازمین تعینات ہیں ریلوے کے ذریعے اراضی کو ٹھیکہ پر دے رکھا ہے اور قبضہ مافیا یہاں پر فصلیں کاشت کر کے لاکھوں روپے سالانہ کما رہے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق ایک ٹرین کی بندش سے ریلوے کے محکموں کو تقریبا سوا 15 کروڑ روپے کا سالانہ خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلع راجن پور سے چلنے والی ٹرینیں بحال کی جائیں اور یہاں کے غریب عوام کو ٹرین کی سستی اور محفوظ سفری سہولیات بحال کی جائیں اور پاکستان ریلوے کے اربوں روپے کے اثاثوں کا تحفظ یقینی جائے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button