اہم خبریںپاکستان

ایسا یوٹیوبر جس کا کسی میڈیا ادارے سے تعلق نہ ہو، وہ خود کو صحافی کہلوا سکتا ہے؟

اگر کوئی کالم نگار ماضی میں رپورٹنگ یا ڈیسک ایڈیٹر رہا ہو اور وہ کالم لکھے تو یقنیاً صحافی کہلائے گا

(رپورٹ سید عاطف ندیم.پاکستان)پہلے لوگ صرف صحافی، رپورٹر یا ایڈیٹر جیسی اصطلاح سے واقف تھے، لیکن اب انہیں نیوز اینکر، تجزیہ نگار، سٹیزن جرنلسٹ، یوٹیوبر، سوشل میڈیا انفلوئنسر، وی لاگر سے بھی پالا پڑنا شروع ہو گیا۔ پاکستان میں 2000 کی دہائی شروع ہونے پر نجی نیوز چینلوں کو کام کرنے کی اجازت ملی تو کچھ ہی عرصے میں درجنوں نیوز چینل ٹی وی سکرینوں کی زینت بن گئے۔الیکٹرانک نیوز میڈیا کی بھرمار سے ہزاروں نوکریاں پیدا ہوئیں اور بڑی تعداد میں صحافی اور میڈیا ورکر سامنے آ گئے۔
2010 کی دہائی میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب کا زمانہ آیا، جس کی وجہ سے پچھلے کچھ سالوں میں یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی اصطلاحات سننے کو ملنے لگیں۔لیکن یہاں ایک کنفیوژن پیدا ہونے لگی۔ پہلے لوگ صرف صحافی، رپورٹر یا ایڈیٹر جیسی اصطلاح سے واقف تھے، لیکن اب انہیں نیوز اینکر، تجزیہ نگار، سٹیزن جرنلسٹ، یوٹیوبر، سوشل میڈیا انفلوئنسر، وی لاگر سے بھی پالا پڑنا شروع ہو گیا۔
اب کئی صحافی یوٹیوبرز اور وی لاگرز بن چکے ہیں جبکہ بعض یوٹیوبرز اور وی لاگرز صحافت کا بیک گراؤنڈ نہ ہونے کے باوجود خود کو صحافی یا تجزیہ کار کے طور پر پیش کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سب اصطلاحات کے معنیٰ کیا ہیں اور ان میں کیا تکنیکی فرق ہو سکتا ہے۔
کیمبرج ڈکشنری کے مطابق صحافی وہ ہوتا ہے جو اخبار، میگزین، ریڈیو یا ٹی وی کے لیے خبریں اکٹھا کرتا ہے اور لکھتا ہے۔ صحافی روزناموں، ہفتہ ناموں، ماہ ناموں، نیوز ایجنسیوں، نیوز ٹی وی چینلوں میں کام کرتے ہیں۔ پی ایف یو جے ’ورکنگ جرنلسٹ‘ صرف اسے سمجھتی ہے جس کا گزر بسر صحافت سے ہونے والی آمدنی پر ہو۔
ایسے لوگوں میں میڈیا اداروں کے فل ٹائم رپورٹر، کارٹونسٹ، ٹی وی کیمرا مین، پریس فوٹو گرافر، نیوز پروڈیوسرز، ایسوسی ایٹ نیوز پروڈیوسرز، اسسٹنٹ پروڈیوسر، نیوز اینکر، کاپی رائٹر، سکرپٹ رائٹر، کانٹنٹ رائٹر، کنٹرولر نیوز، ڈائریکٹر نیوز وغیرہ شامل ہیں۔ایسے صحافی جو سرکاری محکموں سے تنخواہ لیتے ہیں یا پھر وہ سول سرونٹ یا مسلح افواج کے ماتحت ہوں انہیں ورکنگ جرنلسٹ نہیں سمجھا جائے گا۔صرف میڈیا اداروں میں ملازمت کرنے والے مختلف شعبوں کے افراد ہی ورکنگ جرنلسٹ سمجھے جائیں اور سرکاری محکموں سے وابستہ صحافی اس تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا نے مل کر صحافیوں کی ایک نئی قسم ’سٹیزن جرنلسٹ‘ کو جنم دیا ہے۔ اس سے مراد عام شہری ہیں جو کسی واقعے کو دیکھ کر اسے فلما لیتے ہیں یا پھر سوشل میڈٰیا کے ذریعے بیان کر دیتے ہیں۔دنیا بھر میں کئی موقعے آئے جب کسی پروفیشنل صحافی کی بجائے ایک شہری نے اپنی خبر یا ویڈیو سے ہلچل مچا دی ہو۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل کمیونیکیشن کے پروفیسر اور روئٹرز انسٹیٹیوٹ برائے سٹڈی آف جرنلزم رازمس کیلس نیلسن نے ایک ایسا ہی واقعہ یاد دلایا کہ کس طرح ڈارنیل فریزر نے گذشتہ سال جارج فلوئیڈ کی گردن کو 10 منٹ تک گھٹنے سے دبانے والے پولیس افسر ڈیرک شوون کی ویڈٰیو ریکارڈ کرنے کے بعد اپنے فیس بک پر ڈال دی تھی۔اس واقعے نے کچھ عرصے کے لیے امریکہ اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
رازمس زور دیتے ہیں کہ کوئی بھی شہری صحافت کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے رضاکار صحافیوں کا بھی ذکر کیا۔تاہم یہاں ایک نکتہ انتہائی اہم ہے۔ ورکنگ جرنلسٹ چونکہ کسی میڈٰیا ادارے سے وابستہ ہوتا ہے تو اس پر کئی چیکس ہوتے ہیں، وہ جوابدہ ہوتا ہے اور بطور ماہر صحافی اس کی رپورٹنگ میں نقائص کا احتمال کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک تو سٹیزن جرنلسٹ تربیت یافتہ نہیں ہوتا اور مہارت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی خبر کی تصدیق کرنا مشکل امر ہے، دوسرے یہ کہ چونکہ وہ کسی دفتر یا ادارے میں کام نہیں کرتا، اس لیے اس کے کام کی جانچ پڑتال اور نگرانی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، اس لیے سٹیزن جرنلسٹ کی دی ہوئی خبر میں ہر قسم کی غلطی کا امکان موجود رہتا ہے۔
ایک رپورٹر کا تجزیہ کاری کرنا کوئی انہونی بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے رپورٹرز اپنے کیریئر میں آگے جا کے بیورو چیف بنتے ہیں اور پھر ٹی وی پر بطور تجزیہ کار آتے ہیں۔یہی حال کالم نگاروں کا ہے۔ اگر کوئی کالم نگار ماضی میں رپورٹنگ یا ڈیسک ایڈیٹر رہا ہو اور وہ کالم لکھے تو یقنیاً صحافی کہلائے گا۔ایک صحافی جس کا گزر بسر صحافت سے ہونے والی آمدنی پر ہو تو وہ صحافی کی تعریف پر پورا اترے گا لیکن اگر کوئی صحافت کو ضمناً لیتا ہے مثلاً وہ محض پیشہ ور کالم نگار ہوں تو صحافی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔اسی طرح بزنس ہاؤسز کے مالکان بھی صحافی نہیں کہلائیں گے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک شخص خود کو ڈاکٹر نہیں کہلوا سکتا جب تک اس کے پاس متعلقہ لائسنس نہ ہو۔ کچھ اینکرز، ٹاک شو کے میزبانوں یا تجزیہ کاروں کا حقیقی اور ٹھوس صحافت کی بجائے زیادہ جھکاؤ تفریح کی جانب ہوتا ہے۔
کیا وی لاگر یا یوٹیوبر خود کو صحافی کہہ سکتے ہیں؟
پچھلے کچھ سالوں میں کئی لوگوں نے یوٹیوب پر اپنے چینل بنا کر حالات حاضرہ اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر وی لاگز کرنا شروع کر دیے ہیں۔یہ لوگ ان پروفیشنل صحافیوں سے الگ ہیں جو اب آہستہ آہستہ اس پلیٹ فارم کو جوائن کر رہے ہیں۔اس صورت حال میں دونوں طرح کے یوٹیوبرز کے درمیان فرق جاننا اہم ہے۔
عموماً پروفیشنل صحافی ان سب باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر کام کرتے ہیں لیکن ایک عام شہری بھی، جسے صحافت کا خاطر خواہ تجربہ نہ ہو اور وہ کبھی میڈیا ادارے سے منسلک نہ رہا ہوں، اس کے باوجود ایک اچھی اور متوازن خبر دے سکتا ہے۔ اگر ایک یوٹیوبر کی صحافی بننے کی تربیت نہ ہو یا وہ جرنلزم میں ڈگری یافتہ نہ ہو اور ناتجربے کار ہو تو پھر وہ صرف یوٹیوبر ہی کہلائے گا۔
ایک ایسا یوٹیوبر جس کا کسی میڈیا ادارے سے تعلق نہ ہو، وہ خود کو صحافی کہلوا سکتا ہے.صحافی کا بنیادی مقصد ٹھوس معلومات، حقائق اور آرا کو بڑے پیمانے پر عوام تک پہنچانا ہے تو وہ اس کے لیے کوئی بھی میڈیا استعمال کر سکتا ہے۔رپورٹ یا خبر کا متن اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا میں بہت سے فری لانس جرنلسٹ موجود ہیں جو کالم نگار بھی ہیں، کنٹریبیٹور بھی ہیں، اداریے بھی لکھتے ہیں۔اسی طرح سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بھی صحافی ہونے کا دعوے دار ہو سکتا ہے.دنیا بھر میں صحافت کے حوالے سے تھیوریز میں سے ایک صحافی کا وکالت (advocacy) کرنا بھی شامل ہے۔ جو صحافی این جی اوز کے لیے کام کرتے ہیں، جمہوریت کے اصولوں پر یقین رکھنے والے صحافی بھی جمہوریت کی وکالت سے منسلک کیے جاتے ہیں۔وکالت صحافت کا ایک پرانا اصول ہے، جو فرق روا رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ آیا صحافی کسی خاص ایجنڈے یا کسی نقطۂ نظر کی تشہیر کر رہا ہے؟
’اگر آپ باقاعدہ مہم چلاتے ہیں، اور اس انداز سے چلاتے ہیں کہ حقائق کو توڑیں مروڑیں اور صحافتی اقدر کو پامال کریں تو پھر چاہے آپ ٹی وی پر بیٹھے ہوں، ریڈیو یا پھر سوشل میڈٰیا پر آپ پر صحافی ہونے کا لیبل نہیں لگ سکتا۔‘
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ آیا ایسے صحافیوں پر اپنے میڈیا ہاؤس کے قواعد لاگو ہوتے ہیں اور کیا وہ اپنے میڈیا ہاؤس کی بجائے خود اپنے ذاتی یوٹیوب چینل پر خبر بریک کر سکتے ہیں؟
ہر تنظیم کے اپنے قواعد ہوتے ہیں، کچھ تنظیمیں آپ کو اجازت دیں گی کہ آپ سوشل میڈیا پر خبر پہلے بریک کر دیں جیسے کہ بیشتر اخباروں اور پاکستان کے ٹی وی چینلوں کے صحافیوں پر کوئی خاص روک ٹوک نہیں کہ وہ پہلے خبر ادارے کو دیں اور پھر اپنے ذاتی اکاؤنٹ پر اس کو بریک کریں۔مگر بین الاقوامی میڈیا تنظیموں میں سے بیشتر کے یہی قواعد ہیں کہ پہلے خبر ادارے کے پاس آئے گی اور ادارہ اس خبر پر فیصلہ کرے گا۔یہ قواعد یا ضابطہ اخلاق ہر ادارے کے اپنے ہوتے ہیں اور انہیں قانون نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحافی ادارے کے پے رول پر 24/7 ہوتا ہے تو اس وقت میں موصول ہونے والی معلومات بھی ادارے کی ملکیت قرار دی جاتی ہے۔
ادارہ صرف اس وقت ایکشن لے سکتا ہے جب اس نے اپنے ملازمین کو لکھ کر یہ واضح کیا ہو کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے مگر آہستہ آہستہ ادارے اس رجحان کو ترک کر رہے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر افراد اداروں سے بڑے ہوتے جا رہے ہیں اور ادارے چاہتے ہیں ان کے ملازمین کے فالورز بھی ان کی ویب سائٹ پر آئیں اس لیے وہ اپنے صحافیوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ خود اپنا برانڈ سوشل میڈیا پر بنائیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button