پنجاب میں پنشن ادائیگی کا مسلہ سنگین کیوں ہے …،حیدر جاوید سید
شہباز شریف کے دونوں اداوار ( وزارت اعلیٰ کے ) میں پنجاب بھر کے جن محکموں کی فاضل رقم اور فکس پنشن فنڈ میٹرو بس منصوبے پر خرچ کئے گئے تھے
صوبہ پنجاب کے مختلف محکموں میں سال 2018 سے جاری پنشن ادائیگی کا بحران کیوں ہے اور کیوں مختلف محکموں بالخصوص سابق بلدیاتی اسکولوں جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی اداروں سے لے کر محکمہ تعلیم کو دے دیئے گئے کے ریٹائرڈ ملازمین تین تین چار چار ماہ تک پنشن سے محروم رہتے ہیں.
میں آپ کو ایک زندہ مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں بلدیہ شیخوپورہ کی ایک بڑی رقم ڈاکخانہ جات کے سیونگ اکاونٹ میں فکس تھی اس رقم سے بلدیہ کے ریٹائر ملازمین کو پنشن ادا کی جاتی تھی بلکہ زائد آمدنی ( جو منافع کی صورت میں ہوتی تھی ) دیگر مدوں میں بھی استعمال ہوجاتی پھر جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام اور اصلاحات کا دور آگیا بلدیاتی اسکول محکمہ تعلیم کو دے دیئے گئے مگر ان کا کیڈر اور مالی معاملات دیگر اساتذہ سے الگ رہے ان کی تنخواہیں اور پنشن متعلقہ بلدیہ کے فنڈ سے محکمہ تعلیم کو منتقل ہوتے رہے آگے چل کر مشرف کے ضلعی حکومتوں کے نظام میں شیخوپورہ کے اس پنشن فنڈ کی فکس رقم کا نصف نکلوا کر اللوں تللوں پر اڑادیا گیا .
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق پھر شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے انہیں لاہور میں میٹروبس چلانے کا خیال آیا اس منصوبے کیلئے انہوں نے پنجاب کے تمام محکموں کی فاضل رقم میٹرو بس منصوبے میں جھونک اس میں بلدیہ شیخوپورہ کی وہ باقی فکس رقم بھی شامل تھی جسکا نصف پہلے میاں جلیل شرقپوری نامی ضلعی ناظم نکلوا کر خرچ کر گیا تھا
شہباز شریف کے دونوں اداوار ( وزارت اعلیٰ کے ) میں پنجاب بھر کے جن محکموں کی فاضل رقم اور فکس پنشن فنڈ میٹرو بس منصوبے پر خرچ کئے گئے تھے ان کے حکم پر تین تین ماہ کے ایڈوانس فنڈز متعلقہ محکموں کو بھجوائے جاتے رہے لیکن جونہی 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت آئی پنشن ادائیگی مسلہ بن گئی ابتداً تو 6 ماہ تک پنشن نہیں دی گئی پنشنروں نے بہت احتجاج کیا بہت تاخیر سے سہی مسلہ اس وقت کے وزیراعلیٰ تک پہنچا اور پنشنروں کو ریلیف ملنے لگا دو دو تین تین ماہ بعد سہی پنشن مل تو جاتی تھی لیکن اب جب سے مسلم لیگ ن دوبارہ پنجاب میں برسرِ اقتدار آئی ہے پنشنرز پھر سے دھکے کھانے پر مجبور ہوگئے اب بھی تین ماہ سے پنشن نہیں ملی چوتھا مہینہ بھی آدھے سے زیادہ گزر گیا کوئی شنوائی ہے نا داد رسی لیکن روزانہ اربوں روپے کے نئے منصوبوں کا اعلان اہتمام سے ہوتا ہے ان کی تشہیر پر کروڑوں روپے کے اشتہارات کی میڈیا پر برسات جاری ہے.تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے غریب یتیم و یسیر ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے منظوری آخری مرحلے میں ہے لیکن صوبے کے مختلف محکموں کے پنشنروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں آسمان کو چھوتی مہنگائی میں پنشنروں پر کیا بیت رہی ہے اس کی فکر اس حکومت کو بالکل نہیں جو بارہ کہو سے مری تک شیشہ ٹرین چلانے کا منصوبہ فائنل کرنے میں مصروف یے اور غریب یتیم و یسیر ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہیں بھی بڑھانا چاہتی ہے تاکہ ارکان اسمبلی کے خاندانوں کو داتا گنج بخش کے لنگر سے پیٹ پوجا نہ کرنا پڑے دربدر دھکے کھاتے ان پنشنروں کو اگر پنجاب کی منصوبہ باز حکومت پنشن نہیں دے سکتی تو انہیں زہر ہی دے دے تاکہ قصہ ہی تمام ہو .
نوٹ :-
پنشنز سے محروم ملازمین میں میرے عزیزان بھی شامل ہے وہ مجھ قلم مزدور کو دھانسو صحافی سمجھ کر اکثر کہتے ہیں آپ ہماری فریاد حکمرانوں تک پہنچائیں میں بھی فیس بک پر لکھ دیتا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ اس لکھے کا فائدہ کچھ نہیں ہوتا