شام ، بدلتے منظرنامے کا ایک تجزیہ ( قسط 10 )…….حیدر جاوید سید
20 ویں صدی کے وسط میں ابھرنے والی بعثی تحریک نے سیکولرازم، سوشلزم اور پین عرب ازم کے نظریات کی حمایت کی
ہمارے لائق احترام دوست اور لاہور پریس کلب کے سابق صدر سید ثقلین امام نے شام کے حالیہ منظر نامے پر
” ترقی پسند عرب قوم پرستی ” کا خاتمہ کے عنوان سے قابل توجہ تحریر لکھی گزشتہ روز کے کالم میں اس تحریر کا ذکر کیا تھا پڑھنے والوں کے استفادے کیلئے سید ثقلین امام کی تحریر حاضر سیدی ان دنوں بی بی سی لندن سے منسلک ہیں آپ ان کی تحریر پڑھ لیجے وہ لکھتے ہیں
” شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی عالم عرب میں سیکیولر اور ترقی پسند عرب قوم پرستی والی سیاسی تحریک بعث سوشلزم سے نام کی حد تک جُڑا ہوا آخری ملک بھی ختم ہو گیا ہے۔ بعث سوشلسٹ نظریہ ایک زمانے میں عرب قوم پرستی کے لیے میناۂِ نور کی طرح کھڑا تھا، جس نے عربوں کی کئی نسلوں کو اتحاد، خودمختاری اور استعماری اور سامراجی قوتوں سے آزادی کے وژن سے متاثر کیا۔
بعث پارٹی والے جنھیں بعتھسٹ یا بعثی بھی کہا جاتا ہے، ایک عرب قوم پرست نظریہ ہے جو ایک سوشلسٹ انقلابی حکومت پر ایک نظریاتی پارٹی کی قیادت کے ذریعے ایک ترقی پسند متحدہ عرب ریاست بنانا چاہتے تھے۔ یہ نظریہ سرکاری طور پر شامی دانشوروں مشیل افلاق، ذکی العروسی، اور صلاح الدین البطار کے افکار پر مبنی ہے۔ جدید دور کے بعثی رہنماؤں میں مصر کے جمال عبدالناصر، عراق کے سابق صدر صدام حسین، شام کے سابق صدر حافظ الاسد اور ان کے بیٹے شام کے سابق صدر بشار الاسد شامل کیا جاتے ہیں۔
20 ویں صدی کے وسط میں ابھرنے والی بعثی تحریک نے سیکولرازم، سوشلزم اور پین عرب ازم کے نظریات کی حمایت کی۔ سماجی انصاف اور ترقی کو فروغ دیتے ہوئے عرب اقوام کو مشترکہ شناخت کے تحت متحد کرنا اس کا اہم مشن تھا۔ اس تحریک نے عالم عرب کے نوجوانوں کو سرد جنگ کے دوران امریکہ کی قیادت والی استعماریت اور سامراجیت کے خلاف متحرک کیا۔
بعثی نظریات کا شام اور عراق میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رہا جہاں اس نے کئی دہائیوں تک براہ راست حکومت کی۔ اس نظریے کی لبنان، اردن، یمن، لیبیا، سوڈان اور فلسطین میں بھی نمایاں سیاسی یا نظریاتی موجودگی رہی، جس نے قوم پرست تحریکوں اور اپوزیشن گروپوں کی تشکیل کی۔
مزید برآں، مصر، الجزائر اور تیونس جیسے ممالک نے بنیادی طور پر عرب قوم پرستی کے وسیع فریم ورک کے اندر فکری اور نظریاتی دھاروں کے ذریعے بعثت کا محدود اثر بھی دیکھا۔ پاکستان اور بھارت کے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں میں سے جو عرب بعثی تحریک سے متاثر ہوئے، ان میں پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کا نام سر فہرست ہے، جنہوں نے بعثی نظریات سے مشابہت رکھنے والے سوشلسٹ اور سامراج مخالف نظریات کو اپنایا تھا۔
بھارت میں، جواہر لعل نہرو، رام منوہر لوہیا، ارونا آصف علی، اور ای۔ایم۔ایس۔نامبودری پاد جیسی شخصیات کے نام لیے جا سکتے ہیں جو عرب نیشنل ازم اور سوشلسٹ تحریکوں سے فکری طور پر متاثر تھے۔ یہ شخصیات بعثی خیالات کے جنوبی ایشیا میں قوم پرستی، سوشلسٹ، اور سامراج مخالف نظریات پر اثرات کی عکاسی کرتی ہیں۔ غیر وابستہ ممالک کی تحریک کی تخلیق میں بھی بعثی نظریات کا اثر کارفرما تھا۔
ان عرب ممالک کی سیاست پر بعثی نظریات کا اثر رہا، اسے مغربی سرمایہ داری اور سوویت کمیونزم سے الگ ایک "تیسرے راستے” کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ لیکن امریکہ اس تحریک کو بائیں بازو کی تحریک قرار دیتے ہوئے اسے سویت-سپانسرڈ قرار دیتا تھا۔ اس تحریک کے آخری گڑھ شام میں بعثی تحریک کے زوال کے ساتھ اب یہ دور باقاعدہ طور پر ختم ہو گیا ہے۔
بعثی نظریات کی ناکامی کو کئی عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے، مثلاً آمریت، کرپشن، خاندانی قبضہ، امریکی سازشیں، وغیرہ۔ عالم عرب کو پہلی جنگ کے بعد جس تقسیم کا سامنا کرنا پڑا اس نے قومی ریاستوں یا بادشاہتوں کو جنم دیا جو ایک دوسرے سے تعاون کی بجائے متصادم رہیں۔ لیکن سب سے اہم سبب عرب دنیا کی اپنی تاریخی روایتی قبائلی، نسلی اور مذہبی فرقہ واریت سے بالاتر نہ ہو پانا ہے۔
معاشرے کو تقسیم کرنے والے ان روایتی عوامل کا مطلب یہ تھا کہ بعثی حکومتیں، اتحاد کی اپنی بیان بازی کے باوجود، متضاد نسلی اور مذہبی مفادات کے گروہوں کے درمیان توازن کی غیر یقینی کارروائیوں پر مجبور تھیں۔ شام، عراق اور لیبیا جیسے ممالک میں، یہ تقسیم کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی، جس سے تحریکوں کو اندرونی اختلاف اور بیرونی جوڑ توڑ کا خطرہ ہمیشہ لاحق رہا۔
غیر ملکی مداخلتوں نے بھی ان تقسیموں کو ہوا دینے اور استحصال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سرد جنگ کے دوران ہی امریکہ کی قیادت میں مغرب نے انتہا پسند اسلامی گروہوں کے ساتھ مل کر سوشلزم جس نے عرب نوجوانوں کو بئت انسپائر کیا ہوا تھا، انھیں کمزور کرنے کے لیے مذہبی تحریکوں کو متحرک کیا۔ اخوان المسلمین (اخوان المسلمون)، وہابی تحریکوں، اور حزب الدعوہ جیسے گروپوں جیسی مذہبی تنظیموں کو سوشلسٹ اور قوم پرست نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے مالی اور مادّی مدد فراہم کی۔
ان تحریکوں نے نہ صرف سیکولر گورننس کی مخالفت کی بلکہ فرقہ وارانہ ایجنڈے بھی متعارف کروائے جس نے عرب معاشروں میں روایتی تقسیم کو مزید گہرا کیا۔ ان گروہوں کے لیے مغرب کی حمایت، بشمول انتہا پسندانہ پروپیگنڈے کی فنڈنگ، جس کا مقصد سوشلسٹ بعث حکومتوں کو غیر مستحکم کرنا اور سرد جنگ کے دوران ایک نظریاتی کاؤنٹر ویٹ پیدا کرنا تھا۔
اس حکمت عملی نے فرقہ واریت اور قبائلی تصادم کے زہر کو نئی زندگی دی جو آج بھی عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ نسلی اور مذہبی خطوط پر برادریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے، غیر ملکی طاقتوں نے خطے میں ممکنہ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کو یقینی بنایا۔ بعثی حکومتیں، جو اس بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھیں، آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئیں۔ جبر اور آمرانہ اقدامات پر انحصار نے ان کی عوام کو حکمرانوں سے مزید الگ تھلگ کر دیا، جس سے وہ اندرونی اختلافات اور بیرونی سازشوں دونوں کا شکار ہوئے۔
چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی ایک محقق، ژاؤ داشوآئی کا کہنا ہے کہ عرب دنیا آج ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ بعثی نظریات کی تاریخ کے حوالے سے، یہ واضح ہے کہ عرب اقوام کو خودمختاری اور استحکام کی طرف ایک نئی راہ کی ضرورت ہے۔ خطے کی نوجوان آبادی میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن اس ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کو فرقہ وارانہ رکاوٹوں سے آزاد کرانے کے لیے بہتر تعلیم، تکنیکی ترقی اور سیکولر گورننس کے فروز کی شدید ضرورت ہے۔
ترقی کی جانب بڑھنے کے لیے، عرب دنیا کو امن اور استحکام کو ترجیح دینی ہوگی، غیر ملکی سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون کے لیے تکثیریت والے سازگار ماحول کو فروغ دینا ہوگا۔ ثقافتی اور لسانی طور پر ایک جیسی قوموں کو انفراسٹرکچر اور مشترکہ اقتصادی اہداف کے ذریعے جوڑ کر، یہ خطہ اپنی ترقی کے نئے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔
عالم عرب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک زبان اور ایک مذہب کے باوجود بھی وہ متحد نہ ہو سکے کیونکہ وہ اپنی روایتی فرقہ واریت، نسل پسندی اور قبائلی سوچ سے بلند نہ ہو سکے۔ اور یہی اُن کی ناکامی اور پسماندگی کا بنیادی سبب ہے۔ رنگ، نسل، زبان اور مذہب کو شناخت سے زیادہ اہمیت دینے سے آپ ایک دوسرے کے خلاف صرف نفرتیں پھیلا کر اجتماعی خودکشی کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔
ژاؤ داشوآئی کہتی ہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے مشرقی ماڈلز کی طرف دیکھتے ہوئے، عرب دنیا کو وہ رہنمائی مل سکتی ہے جن کے ذریعے وہ حقیقی خودمختاری اور ترقی حاصل کرسکتی ہے۔ بعثت کی ناکامی سے سبق لیتے ہوئے، غیر ملکی مداخلتوں کی وجہ سے تقسیم ہونے والے خطّے کو متحد کر کے اقتصادی آزادی کے حصول کے لیے سیکولرازم اور جدیدیت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہیں۔ یہ سبق عجم اور عرب دونوں کے لیے ہے، ورنہ غلامی ہی مقدر رہے گا۔
پسِ نوشت
علمی و سیاسی شعور کی حامل تحریر آپ پڑھ چکے ہم مقرر عرض کریں گے کہ بہار عرب جس بشار حکومت کو نہ ہلا سکی اس کا دس سے بارہ روز میں ڈھیر ہوجانا حیران کن ہے لیکن اگر آپ زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو سازشوں گھاتوں اور مستقبل کے حوالے سے سازشیوں کے منصوبے کو سمجھنے میں آسانی رہے گی