بین الاقوامی

چینی ڈرونز پر ممکنہ پابندی: بیجنگ کی امریکہ پر تنقید،چین کا "تمام ضروری اقدامات” کرنے کا عزم

امریکی محکمۂ تجارت چار مارچ تک ممکنہ نئے قوانین کے بارے میں عوام سے رائے طلب کر رہا ہے یعنی یہ فیصلہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ انتظامیہ کرے گی

(مدثر احمد-امریکا): چین نے جمعہ کے روز کہا ہے کہ وہ امریکہ کے اس اعلان کے جواب میں "تمام ضروری اقدامات” کرے گا کہ قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر تجارتی چینی ڈرونز پر پابندیاں اس کے زیرِ غور تھیں۔جمعرات کو امریکہ کے محکمۂ تجارت نے کہا کہ وہ چین اور روس جیسے غیر ملکی مخالفین کی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ڈرونز سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے نئے قوانین پر غور کر رہا ہے۔ان کوششوں سے عالمی مارکیٹ پر حاوی چینی ڈرونز پر ضوابط یا پابندیاں نافذ ہو سکتی ہیں۔
جمعہ کو ممکنہ پابندیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے امریکہ پر "قومی سلامتی کے تصور کی تعمیم کرنے، عام اقتصادی اور تجارتی تبادلے میں مداخلت کرنے اور پابندی لگانے اور عالمی پیداوار اور فراہمی کے تسلسل کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔انہوں نے مزید کہا، "ہم اپنے جائز حقوق اور مفادات کے مضبوطی سے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔”امریکی محکمۂ تجارت چار مارچ تک ممکنہ نئے قوانین کے بارے میں عوام سے رائے طلب کر رہا ہے یعنی یہ فیصلہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ انتظامیہ کرے گی۔محکمے نے تجویز پیش کی کہ چین کی تیار کردہ ٹیکنالوجی اسے فاصلے سے "رسائی حاصل کرنے اور جوڑ توڑ کرنے کی صلاحیت” دے سکتی ہے جس سے "امریکی قومی سلامتی کے لیے بے جا یا ناقابلِ قبول خطرات پیدا ہو سکتے ہیں”۔
گذشتہ سال اکتوبر میں دنیا کی سب سے بڑی ڈرون ساز کمپنی چین کی ڈی جے آئی نے کہا تھا کہ وہ امریکی محکمۂ دفاع کے خلاف مقدمہ کر رہی تھی جب واشنگٹن نے اسے 2022 میں "چینی فوجی کمپنی” کا نام دیا تھا۔فرم نے اس وقت کہا، "ڈی جے آئی چینی فوج کی ملکیت یا کنٹرول میں نہیں ہے۔ یہ ایک نجی کمپنی ہے اور اس کی فوجی کمپنی کے طور پر غلط درجہ بندی نہیں ہونی چاہیے۔”ڈی جے آئی حالیہ برسوں میں واشنگٹن کی جانچ پڑتال کا نشانہ بنی ہے بشمول چین میں نسلی اقلیتوں کی نگرانی میں اس کے مبینہ کردار کے سلسلے میں۔ستمبر میں واشنگٹن نے قومی سلامتی کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے چینی اور روسی ٹیکنالوجی کی حامل وائرلیس اور انٹرنیٹ سے منسلک گاڑیوں کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button