کالمزحیدر جاوید سید

القادر یونیورسٹی ریفرنس کا فیصلہ اور چند سوال…..حیدر جاوید سید

’’مجھے خواب میں نبی کریمؐ نے حکم دیا کہ موجودہ شوہر سے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کرلو‘‘

سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی سربراہ عمران خان کو القادر یونیورسٹی ریفرنس میں 14 سال قید 10 لاکھ روپے جرمانہ اور ان کی تیسری اہلیہ بیگم بشریٰ عمران خان کو 7 سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزائیں سنادی گئیں۔
اڈیالہ جیل میں جہاں عمران خان قید ہیں فیصلہ سنانے والی عدالت نے القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا بھی حکم دیا۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت تحریک انصاف کے درجنوں رہنما اس فیصلے کو سیرت النبیؐ پڑھانے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں یعنی ’’القادر یونیورسٹی میں سیرت النبیؐ پڑھائی جاتی تھی تحریک انصاف اس کے بانی و اہلیہ اور حامیوں کے علاوہ باقی سب سیرت النبیؐ پڑھائے جانے کو پسند نہیں کرتے‘‘۔
سیاست میں اوئے توئے اور مذہبی ٹچ ہمیشہ سے تھے مگر عمران خان نے ہر دو کو بام عروج پر پہنچادیا۔ ان کی تیسری اہلیہ کا بھی چند برس قبل ایک بیان شائع ہوا تھا کہ ’’مجھے خواب میں نبی کریمؐ نے حکم دیا کہ موجودہ شوہر سے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کرلو‘‘۔ اس خواب پر مختلف الخیال حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے پر ا نہوں (بشریٰ بیگم) نے تردید کرتے ہوئے کہا ’’میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا یہ غلط طور پر مجھ سے منسوب کیا گیا۔‘‘
اب اسے کیا کہیں کہ جس بیان کی وہ تردید کرتی دیکھائی دیں اس کے قدم قدم پر درست ہونے پر ان کی ایک سہیلی محترمہ فرح گوگی جو آجکل مفرور ہیں مُصر رہیں وہ کہا کرتی تھیں ’’اللہ والوں کے فیصلے اوپر سے آتے ہیں عمران اور بشریٰ کے مخالف ایسے فیصلوں کا مذاق اڑانے کا نتیجہ بھگتیں گے۔‘‘
ساڑھے تین سال یقیناً عمران کے مخالفوں کے نتیجے بھگتے لیکن اب عمران خان کس ” بات اور کام ” کا نتیجہ بھگت رہے ہیں یہ سوال ہے۔
ویسے یہ بات بھی ریکارڈ پر ہرے کہ خود عمران ماضی میں تواتر کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ ’’میں جن حالات سے گزر رہا ہوں ان میں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے پیغمبروں کی طرح تیار کررہا ہے۔‘‘
مندرجہ بالا حوالہ جات ازحد ضروری تھے کیونکہ لمحہ موجود میں دین فروشی میں عمران، ان کی پارٹی اور عقیدت مندوں کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اب دیکھ لیجئے رشوت ستانی کے ایک صاف سیدھے مقدمے کے فیصلے کو سیرت النبیؐ پڑھانے کی سزا قرار دیا جارہا ہے تاکہ "عقیدت مندوں ” کے مذہبی جذبات ابھارے جاسکیں۔
اب ایک سوال ہے ، یہاں تو لمز جیسے اداروں میں بھی ایسے اساتذہ ہیں جو جدیدیت کو اسلام دشمنی پر تعبیر کرتے ہیں۔ ملک کی باقی ماندہ یونیورسٹیوں کو دیکھ لیجئے یہ کسی بھی طرح مختلف فرقوں کے مدرسوں سے کم نہیں ایسے میں ایک نئے "مدرسے” کی ضرور کیوں پیش آگئی؟ معاملہ سیرت النبیؐ پڑھانے پر سزا کا نہیں۔
صاف سیدھا معاملہ ہے 190 ملین پائونڈ برطانیہ سے آئے اصولی طور پر یہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکائونٹ میں آنے چاہئیں تھے لیکن مرزا شہزاد اکبر کی معرفت ملک ریاض ( بحریہ ٹائون والے) سے طے پائے معاملہ کے تحت یہ رقم سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک اکائونٹ میں آئی۔ سپریم کورٹ جہاں ملک ریاض کے بحریہ ٹائون کراچی کے حوالے سے عدالت اور ملک ریاض کے درمیان ایک بڑی رقم بطور جرمانہ ادا کرنے کا معاملہ طے ہوچکا تھا، کس قانون کے تحت رقم حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہونے کی بجائے سپریم کورٹ کے ایک اکائونٹ میں منتقل کروائی گئی؟ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ سنائی نہیں د یتا ۔
کہا جارہا ہے کہ عمران اور اہلیہ نے کرپشن ہی نہیں کی تو سزا کیسی؟ اس رقم کو حکومت پاکستان کی بجائے سپریم کورٹ کے ایک اکائونٹ میں منتقل کرنا غیرقانونی اور کرپشن نہیں تو کیا ہے؟ سچ پوچھئے تو اس معاملے میں ’’وہ‘‘ جج اور متعلقہ اکاونٹ (سپریم کورٹ ) کا نگران بھی شریک جرم تھے۔ دونوں سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ کس قانون کے تحت اس غیرقانونی رقم کو جو برطانیہ حکومت پاکستان کو دے رہا تھا ایک شخص کی ملکیت میں قبول کیا گیا اور اسے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں وصول کرلیا گیا؟
برطانوی نیشنل کرائم ا یجنسی اور حکومت نے 190 ملین پائونڈ حکومت پاکستان کو واپس کرنے کے لئے کہا تھا۔ منی لانڈرنگ اور دوسرے غیرقانونی سرمائے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے معاہدہ کے مطابق پکڑا گیا سرمایہ متعلقہ شخص کو نہیں اس شخص کے ملک کی حکومت کو واپس کرنا ہوتا ہے۔ فرد کو واپس کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ کوئی جرم ہی سرزد نہیں ہوا۔
القادر یونیورسٹی کے لئے دیا گیا رقبہ اور اس کی تعمیرات کا خرچہ ہر دو ملک ریاض کی جیب سے ہوئے۔ بنی گالہ میں بھی زمین کا ایک گھٹالہ موجود ہے۔
ملک ریاض کی جو رقم برطانیہ میں پکڑی گئی، تحقیقات اور دوسرے مراحل طے کرنے کے بعد یہ رقم اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق حکومت پاکستان کی ملکیت تھی۔
ایک رقم جو حکومت پاکستان کی ملکیت تھی کیسے عدالت اور شخص کے درمیان جرمانے والے معاملے کو نمٹانے کے لئے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں منتقل کردی گئی؟
یہ بنیادی طور پر اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔ صاف سیدھے لفظوں میں ’’کرپٹ پریکٹشز ‘‘۔ رقم کے برطانیہ میں پکڑے جانے پر سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں آنے، القادر ٹرسٹ کے قیام کے لئے زمین کی فراہمی پھر تعمیرات ذرا ان سب کا دن مہینے اور سال کا حساب ترتیب دے کر دیکھ لیجئے پتہ چل جائے گا کہ سیرت النبیؐ پڑھانے پر سزا ہوئی ہے یا حکومت پاکستان کا پیسہ فرد کے جرمانے کی ادائیگی کے لئے عدالتی اکائونٹ میں منتقل کئے جانے کا جرم سرزد ہوا ہے۔
عمران خان اور ان کے حامی موالی و انقلابی آج بھی اس کے مخالف سیاستدانوں کو چور ڈاکو لٹیرے سمجھتے ہیں اب عمران خان جب خود اسی صفف میں آن کھڑے ہوئے ہیں تو سیاسی انتقام اور سیرت النبیؐ پڑھانے پر سزا کی ڈھکوسلہ برانڈ باتیں کی جارہی ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ آسانی سے فروخت ہنے والی چیز مذہب ہے سو فروخت ہوتا ہے ہر طرف یہی۔ سیاسی انتقام والی بات تب غلط کیوں تھی جب عمران کے حکم پر نیب نے رات گئے آصف زرداری کی ہمشیرہ کو ہسپتال سے جیل منتقل کیا تھا؟
ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں سب اپنے لیڈر اور اس کے خاندان کو مسجد کی کڑیاں سمجھتے مانتے ہیں اور مخالف خالص جہنمی ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی عمران اور ان کی اہلیہ کے پاس سزائوں کے خلاف اپیلوں کے دو مرحلے (ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ) موجود ہیں۔
ان کے وکلاء کو چاہیے کہ اپیلوں کی سماعت کے دوران درشنی سیاست کے رولوں سے دامن اور زبان بچاکر استغاثہ کے موقف کے چیتھڑے اڑادیں اور ثابت کردیں کہ برطانوی حکومت نے 190 ملین پائونڈ کی رقم حکومت پاکستان کو نہیں بلکہ برطانوی قانون کے ایک مجرم کو پاکستانی سپریم کورٹ میں ایک دوسرے کیس میں جرمانہ ادا کرنے کے لئے دینے کا حکم دیا تھا۔
اصل مسئلہ بلکہ معاملہ یہی ہے۔
عمران خان جب ماضی میں (ویسے وہ اب بھی مخالفین کے لئے یہی کہتے ہیں) مخالفین کو کرپٹ چور ڈاکو وغیرہ وغیرہ کہہ کر گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے اور مونچھوں سے پکڑ کر لٹکانے کی باتیں کیا کرتے تھے ہم نے تب بھی عرض کیا تھا نفرتوں کی یہ سیاست ایک دن انہیں وہیں پہنچادے گی جہاں وہ اپنے مخالفین کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
القادر ٹرسٹ ریفرنس کے فیصلے میں ٹرسٹ کی جو تعریف عدالت نے کی ہے اپیل کے مرحلے میں ان کے وکلاء صرف اس تعریف کو غلط ثابت کردیں تو سارا مقدمہ پانی ہوجائے گی۔ کالم کے اس حصے میں یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ سیاستدانوں سے روابطہ کی بجائے اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کل کی طرح آج بھی گناہ بے لذت ہے۔
مقدمات چلیں وہ جھوٹے ہی سہی تو قانونی طور پر لڑنے کے ساتھ ساتھ عمران اور ان کی جماعت کو سیاسی رویہ اپنانا ہوگا۔ کرپشن و کرپٹ پریکٹسز پر ہوئی سزا پر سیرت النبیؐ پڑھانے والی بودی منطق سے حامیوں کے جذبات بھڑکانے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button