پاکستاناہم خبریںتازہ ترین

کرپشن کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کی تنزلی

ورائٹیز آف ڈیمو کریسی پروجیکٹ میں پاکستان کا اسکور 20 سے کم ہو کر 14 ہو گیا ہے جب کہ اکنامکس انٹیلی جینس یونٹ میں اسکور 20 سے کم ہو کر 18 ہو گیا ہے۔

(سید عاطف ندیم-پاکستان):‌ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن انڈیکس رپورٹ میں پاکستان کی مزید تنزلی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان 180 ممالک کی فہرست میں 135 ویں نمبر پر ہے جو اسے دنیا کا 46 واں کرپٹ ترین ملک بناتا ہے۔

پاکستان کا اسکور 100 میں سے 27 ہے جو گزشتہ سال کے اسکور 29 سے کم ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرپشن کے بارے میں پاکستان کی ناقص کارکردگی کی بڑی وجہ ملک کا نظام انصاف، سماجی رویے اور ملک کی مشکل معاشی صورتِ حال ہے جس میں کرپشن کو ایک معمول سمجھا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ تنزلی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اسے بہتر بنانے کے لیے کوئی کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، کرپشن پرسیپشن انڈیکس کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے آٹھ مختلف ذرائع استعمال کیے گئے ہیں۔

ورائٹیز آف ڈیمو کریسی پروجیکٹ میں پاکستان کا اسکور 20 سے کم ہو کر 14 ہو گیا ہے جب کہ اکنامکس انٹیلی جینس یونٹ میں اسکور 20 سے کم ہو کر 18 ہو گیا ہے۔

ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ میں ڈنمارک کو سب سے کم بدعنوان ملک قرار دیا گیا ہے جب کہ جنوبی سوڈان، صومالیہ اور وینزویلا کو سب سے زیادہ کرپٹ ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔

ایران، عراق اور روس میں بھی کرپشن میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روس 154 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے جب کہ افغانستان 165 ویں اور بنگلہ دیش 151 ویں نمبر پر موجود ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ممالک کے لیے ان کا انفرادی اسکور شمار کیا جاتا ہے جس کے بعد ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

اسکور کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کے پبلک سیکٹر میں ہونے والی کرپشن کے بارے میں عوامی تاثر کیا ہے۔ اس کے مطابق اگر کسی ملک کا اسکور صفر ہے تو وہ انتہائی کرپٹ ملک ہے اور اگر 100 ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں بدعنوانی بالکل نہیں ہے۔

اسی اسکور کی بنیاد پر ملکوں کی درجہ بندی طے کی جاتی ہے اور اگر فہرست میں ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو تو درجہ بندی تبدیل ہو سکتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ بندی سے زیادہ کسی بھی ملک کے اسکور کی زیادہ اہمیت ہے جو کسی بھی ملک میں ہونے والی بدعنوانی میں اضافہ یا کمی کو جانچتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے گزشتہ سال کافی خراب رہا ہے اور 2015 کے بعد پہلی بار پاکستان کا اسکور 30 سے بھی کم ہو گیا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اپنی رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے بدعنوانی جانچنے والے 13 مختلف سرویز اور مختلف ڈیٹا ذرائع استعمال کرتا ہے۔

یہ معلومات جمع کرنے والے ادارے عالمی طور پر معتبر سمجھے جاتے ہیں جن میں ورلڈ بینک اور ورلڈ اکنامک فورم شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

تاہم گورننس کے نظام میں خامیوں اور پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے اور 2017 کے موسمیاتی تبدیلی کے ایکٹ کے تحت اداروں کے قیام میں تاخیر کے باعث 2030 تک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 348 ارب ڈالرز کے فنڈز کے حصول کا ہدف مشکل دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی شکایات بڑھی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے کسی کرپٹ آدمی پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی مخالف پر تو ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے لیکن باقی اپنے لوگوں پر ہاتھ ہلکا رکھا جاتا ہے اور ان کی کرپشن کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کچھ عرصہ قبل موسمیاتی تبدیلی کے نام پر متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے پیسہ پاکستان آیا لیکن ان میں بھی خردبرد کی گئی۔ یہ سب بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ہمارا نظامِ انصاف کمزور ہونے کی وجہ سے بھی بہت سے خلا ہیں اور اگر کوئی اچھا وکیل کر لے تو وہ کرپشن یا پھر قتل کا ہی کیس کیوں نہ ہو۔ اس سے بچ سکتا ہے۔

اس نظامِ انصاف میں صرف عدالتیں نہیں بلکہ وہ تمام ادارے بھی شامل ہیں جو کرپشن کی روک تھام میں شامل ہیں۔

ان میں قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) پولیس اور دیگر ادارے شامل ہیں لیکن یہ تمام ادارے بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر کمپرومائز ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سینٹر فار ایروسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مشیر اور تجزیہ کار ڈاکٹر عثمان چوہان کہتے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ ریٹنگ صرف اس بنیاد پر نہیں ہوتی کہ اس ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دوسرے ممالک کی ریٹنگ میں بہتری کی وجہ سے بھی آپ کی ریٹنگ کم ہوسکتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ملک دو رینک اوپر جائے گا تو آپ کا رینک کم ہو جائے گا۔ پاکستان سمیت وہ ممالک جو 130 سے 140 کی رینکنگ کے درمیان ہے ان کے تقریباً ایک جیسے حالات ہیں اور ان کی رینکنگ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

اُن کے بقول موجودہ حالات میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر حالات بہت زیادہ اچھے نہیں ہوئے تو بہت زیادہ برے بھی نہیں ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر عثمان کا کہنا تھا کہ کرپشن کا تخمینہ لگانا آسان نہیں ہے، اکثر اوقات یہ اندازوں اور بعض اوقات تعصبات کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے۔ ایسے میں دو پوائنٹس کی کمی بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر بدرسہیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں عوام کی معاشی مشکلات، ہمارا سماجی نظام اور ہمارا نظامِ انصاف شامل ہیں جو لگاتار تنزلی کی جانب جارہے ہیں۔

اُن کے بقول گزشتہ کئی برسوں سے ان تینوں شعبوں میں پاکستان میں کسی قسم کا کام نہیں کیا گیا۔ ہر شعبہ زندگی میں انفرادی یا اجتماعی طور پر تنزلی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ریٹنگ کم ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے مشکل معاشی صورتِ حال نے اس میں مزید اضافہ کیا ہے اور اب لوگ کرپشن کو ایک معمول سمجھتے ہیں اور کسی جائز کام کے لیے بھی رشوت دیے جانے کو اس کام کے ہونے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ رویہ سماجی طور پر اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ اب ایک برائی کو برائی نہیں سمجھا جا رہا جس کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ ہر شعبہ زندگی میں آ چکا ہے اور ہم اسے درست کرنے کی کوشش بھی نہیں کررہے۔

دوسری جانب حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ملک میں کرپشن کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور اینٹی کرپشن کے محکمے ملک میں کرپشن روکنے کے لیے سرگرم ہے اور اس حوالے سے متعدد افرادکے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button