
’’عمر کی نقدی، ادھار کی حاجت ” …..حیدر جاوید سید
میں نے کہا یار میں ملتان جاتا ہوں تو جس ہوٹل میں قیام کرتا ہوں اس کے کمرے کا کرایہ (میرے لئے رعایتی) ساڑھے چار ہزار روپے ہے اس میں ناشتہ اور کپڑوں کی استری و جوتے پالش اعزازی ہیں
پہلے نصف بہتر (اہلیہ) بیمار ہوئیں ان کی بھانجیاں انہیں بحریہ انٹرنیشنل ہسپتال لے گئیں۔ بحریہ ٹائون لاہور میں واقع اس ہسپتال میں بحریہ ہے نہ انٹرنیشنل اور نہ ہسپتال، آپ قصاب کی جدید دکان سمجھ لیجئے۔ ماضی کے سلاٹر ہائوس اور جدید سلاٹر ہائوس میں جو فرق ہوتا ہے وہی ہے۔ فقط مریض کی دھیرے دھیرے کھال اتارنے کے سارے ’’اوزار‘‘ موجود ہیں۔
بحریہ انٹرنیشنل ہستپال ایک تلخ تجربہ رہا۔ 32 گھنٹوں میں فقط ایک بات سمجھ سکا وہ یہ کہ ان فائیو سٹار نجی ہسپتالوں سے بہرحال گندے مندے بے ڈھبے سرکاری ہسپتال بہتر ہیں اور کچھ ہے تو ان سرکاری ہسپتال میں ہمدردی کے دو بول جو ملتے ہیں ان میں تھوڑا بہت خلوص ہوتا ہے۔
مقابلتاً نجی ہسپتال، یہاں ہمدردی کے دو بول بھی ’’نرسنگ سروس‘‘کے زمرے میں آتے ہیں ہسپتال کے اندر واقعہ میڈیسن شاپ میں ادویات کی قیمت کے ساتھ سروسز چارجز بھی شامل ہوتے ہیں۔
ہاں بحریہ انٹرنیشنل ہسپتال کی کینٹین اچھی تھی۔ صاف ستھری، چائے کافی وغیرہ کی قیمتیں کچھ زیادہ تھیں۔ ماش کی دال اور چار روٹیاں گیارہ سو روپے میں۔ ایک بار تو دماغ کی بتی گل ہوگئی۔
ایک دوست کو دکھی انداز میں صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا ’’آجکل بحریہ ٹائون کی کمائی کے ذرائع ان کے ہسپتال، یوٹیلٹی بلز اور سکیورٹی چارجز وغیرہ ہیں، فائیو سٹار ہوٹل سے مہنگے اس ہسپتال میں پارکنگ نام کی کوئی چیز نہیں ہسپتال کی مرکزی دیوار کے ساتھ گلیوں میں صرف عملے کی گاڑیاں لگ سکتی ہیں یا کسی وی آئی پی کی ، عام مریض جسے بدقسمتی گھیر کر لے گئی ہو عیش کرے اپنے خرچے پر۔
ایک دوست نے کہا شاہ جی کیا پہلی بار علم ہوا ہے کہ نجی ہسپتال سلاٹر ہائوس ہوتے ہیں؟ عرض کیا جی نہیں ماضی کے تین چار تجربوں میں ایک آدھ خوشگوار رہا باقی اسی طرح تلخ تھے۔ میں نے کہا یار میں ملتان جاتا ہوں تو جس ہوٹل میں قیام کرتا ہوں اس کے کمرے کا کرایہ (میرے لئے رعایتی) ساڑھے چار ہزار روپے ہے اس میں ناشتہ اور کپڑوں کی استری و جوتے پالش اعزازی ہیں۔ کہنے لگے اس کمرے میں ڈاکٹر بھی تو نہیں ہوتے۔ حقیقت یہی ہے کہ ملتان و الے ہوٹل کا کمرہ بحریہ انٹرنیشنل ہسپتال سے پانچ سو گنا بہتر اور معیاری ہے۔
بہرحال اہلیہ اب روبہ صحت ہیں البتہ ہم پچھلے دو دن سے علیل۔ کل بلڈ پریشر 199/99تھا رات گئے 211/147ہوگیا آج صبح 157/59تھا۔ آپ بھی سوچیں گے میں کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں یہ تو کہانی گھر گھر کی ہے۔ یعنی جس بھی سفید پوش شخص کا نجی ہسپتالوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ ’’بے حال و بدحال‘‘ ہی ہوجاتا ہے۔
لیکن کیا کیجئے ہمارے ہاں کیا پورے تھرڈ ورلڈ میں کاروبار کے اصول نہیں ہوتے۔ سڑک کنارے کھڑا ایک عام ریڑھی والا ہو یا فائیو سٹار ٹائپ نجی ہسپتال سب دائو لگنے کا موقع تلاش کرتے ہیں۔ آپ کبھی ان دائو بازوں سے گفتگو کرکے دیکھ لیجئے، یہ آپ کو بتائیں گے کہ سیاستدان چور ہیں ملک کو لوٹ کر کھاگئے ہیں مجال ہے کہ یہ کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کرلیں۔ ویسے ہمارا عمومی مزاج یہی ہے ہم دوسرے کی آنکھ میں بال تلاش کرلیتے ہیں مگر اپنی آنکھ میں موجود شہتیر سے بے خبر ہوتے ہیں ۔
ہمارے ہاں جس مہارت کے ساتھ صحت اور تعلیم کو دھندہ بنایا بنوایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ صحت اور تعلیم کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ بڑے پراپرٹی ٹائیکونز اپنے اخبارات اور ٹی وی چینل کے مالک ہیں۔
ایک مرحوم چیف ایڈیٹر یاد آئے اکبر علی بھٹی ان کا نام تھا روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے نام سے انہوں نے اخبار نکالا تھا، یہ اخبار اب شامیوں اور نیازیوں کے قبضوں میں ہے ، اکبر علی بھٹی بنیادی طور پر ادویات کے سٹاکسٹ تھے۔ ایک عام میڈیکل ریپ کے طورپر انہوں نے عملی زندگی کا آغاز کیا اول اول قدیم ضلع ملتان (ابھی ملتان کے بطن سے خانیوال و لودھراں کے اضلاع نہیں نکلے تھے) میں دو تین ادویہ ساز کمپنیوں کے سٹاکسٹ ہوئے اور پھر بڑھتے چلے گئے۔ 1970ء کی دہائی کے آخری اور 1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ان کی ’’چاندی‘‘ ہوگئی۔ کیسے ہوئی اس داستان کو رہنے دیجئے۔ اوروں نے کمایا ہے تو پھر اگر اکبر علی بھٹی نے کمالیا تو کون سا قیامت آگئی۔
بھٹی صاحب نے 1990ء کی دہائی میں روزنامہ پاکستان کی اشاعت کا آغاز کیا اخبار کی پیشانی پر چیف ایڈیٹر ا کبر علی بھٹی کا جگ مگ کرتا نام شائع ہوتا تھا مرحوم ضیا شاہد اس کے پہلے ایڈیٹر تھے بعدازاں انہوں نے ’’خبریں ‘‘ کے نام سے اپنا اخبار نکال لیا۔
علی اکبر بھٹی کہا کرتے تھے اخبار نکالنے سے قبل جس افسر کے دروازے پر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا چیف ایڈیٹر روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اکبر علی بھٹی کو وہ افسر اور صوبائی سیکرٹری دفتر کے دروازے پر لینے آتا ہے۔
یہیں سے اندازہ کیجئے کہ جن تعلیمی طبی اور ہائوسنگ کے تاجروں نے اخبارات اور نجی ٹی وی چینل بنالئے ہیں ان کا دبدبہ کیا ہوگا۔
عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اساتذہ کہا کرتے تھے، تعلیم صحت روزگار اور دوسری بنیادی شہری سہولتیں فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے۔ ہماری حکومتوں نے جس طرح اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے منہ موڑا اس کے لئے کسی ایک خاص حکومت کو دوش دینے کی ضرورت نہیں اس میدان میں سبھی تقریباً ایک جیسے ہیں ” پندرہ انیس ” کا فرق ضرور ہے۔
مثلاً وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں میں سے ایک بھی رواں سال کے مالی بجٹ میں اپنی ہی مقرر کردہ کم سے کم ماہانہ اجرت نہیں دلواسکتی۔ چند برس قبل پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کم سے کم ماہانہ اجرت دلوانے کی حماقت کی تھی سرمایہ داروں نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا تھا۔
نجی شعبہ میں کون کم سے کم بنیادی ماہانہ اجرت کے قانون پر عمل کرتا ہے؟ چار اور دیکھ لیجئے اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ میں خود برسوں سے دیہاڑی دار مزدور سے بھی پچاس فیصد کم اجرت پر مزدوری کرتا ہوں۔ چلیں میری اہلیہ کی اچھی خاصی پنشن بھی ہے (یہ الگ بات ہے کہ تین تین ماہ تک نہیں ملتی اب بھی تین ماہ سے نہیں ملی) دوست ہیں ماں باپ جیسی محبت سے دلجوئی بھی کرتے ہیں اور خیال بھی لیکن ایک عام شخص پر یہاں کیا گزرتی ہے مجھ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔
بات گھوم پھر کر پھر وہی ہے کہ جو ریاست ماچس کی ڈبیا پر سیلز ٹیکس لیتی ہے وہ اپنے شہریوں کو دیتی کیا ہے؟
بالادست اشرافیہ ہو یا سول ملٹری بیوروکریسی، عام آدمی ان کے نزدیک حقیر تر چیز ہے۔ اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر شائع ہونے والے رنگین اشتہاروں یا ساٹھ صفحات کے خصوصی ایڈیشنوں سے عام شہری کے گھر کا چولہا نہیں جلتا۔
جو لوگ آج کل اقتدار میں ہیں یہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں کہا کرتے تھے کہ ناتجربہ کاروں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ان تجربہ کاروں نے سولہ ماہ پی ڈی ایم کے نام پرحکومت کی اب بارہ ماہ سے پھر اقتدار میں ہیں عوام کو اس سے کیا ملا؟
سوال کرکے دیکھ لیجئے ان کے جیالے متوالے پٹواری گلے پڑجائیں گے۔ آپ جمہوریت دشمن کہلائیں گے۔
معاف کیجئے گا میں بھی کیا باتیں لے کر یبٹھ گیا لیکن سچ یہی ہے کہ حرف بہ حرف یہی بھگت رہے ہیں ہم۔ کیا کریں ہم کچھ کر بھی تو نہیں سکتے۔ عام آدمی کیا کرسکتا ہے سوائے رونے دھونے کڑھنے کے۔ چار اور ایسے ہی حالات ہیں۔ ایک دن اُدھر سبزی خریدنا مشکل ہوگیا۔ پیسے تھے ، ہوا یہ کہ دو سے زائد خواتین بضد تھی کہ انہیں ایک وقت کے لئے سبزی ٹماٹر پیاز دلوادوں۔ توفیق کے مطابق خدمت کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مزید دو تین خواتین نے گھیرلیا۔ بھلا ہو سبزی فروش کا جس نے ہماری جان چھڑوادی ان سے۔
پیشہ ور منگتوں کو چھوڑیں چار اور کے عام آدمی کے چہرے پر نگاہ ڈال کے دیکھ لیجئے چہروں پر موجود کرب آپ کی آنکھیں بھگودے گا۔
بحریہ انٹرنیشنل ہسپتال بحریہ ٹائون لاہور کے جدید سلاٹر ہائوس سے بات شروع ہوئی تھی پھر بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ ہمارے لیگی دوست ناراض ہوجائیں گے دوسروں کے ناراض ہونے سے فرق نہیں پڑتا لیکن اختیار ولی خان اور شیراز اویسی کی ناراضگی کا بوجھ اٹھانا مشکل ہے ورنہ سچ یہ ہے کہ ان دنوں صوبہ پنجاب میں بس رنگین اشتہارات اور اعلانات کی حکومت ہے۔
رنگین اشتہاری حکومت ایسے ایسے ڈرامے پیلتی ہے کہ بندہ حیران ہوجاتا ہے۔
بہرحال اللہ کا کرم ہے نصف بہتر ( اہلیہ ) کی صحت بحال ہورہی ہے اپنا کیا ہے یہی حال اور بیماری اپنی رہنی ہے۔ کڑھنے کا فائدہ۔ کیا قسمت ہے کھیلنے کے دن اور خواب دیکھنے کی راتیں دونوں حصول رزق کی مشقت کی بھینٹ چڑھ گئے ۔
چلیں مزید کتنا جی لیں گے عمر کی نقدی بچانے کے لئے ادھار کی حاجت کیوں کریں۔