
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)
پاکستان میں حالیہ دنوں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کو اپنے ہی سوشل میڈیا ورکرز اور حمایتیوں کی غیر معمولی اور بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔ یہ تنقید اچانک نہیں بلکہ تدریجاً بڑھتی ہوئی ایک ایسی لہر کی شکل اختیار کر چکی ہے جو نہ صرف پارٹی کے اندر اضطراب کا باعث بن رہی ہے بلکہ آئندہ سیاسی منظرنامے پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔
پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ: حمایتیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز
حالیہ دنوں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے نے عوامی بے چینی کو بڑھا دیا ہے، لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے۔ ماضی میں حکومتی فیصلوں کے دفاع میں پیش پیش رہنے والے مسلم لیگ ن کے کئی سوشل میڈیا انفلوئنسرز اب تنقید کے علمبردار بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ان میں نمایاں نام آر اے شہزاد کا ہے، جو ڈنمارک میں مقیم ہیں اور ن لیگ کے ایک متحرک اور مؤثر سوشل میڈیا چہرے سمجھے جاتے ہیں۔ وہ ان دنوں مسلسل حکومت کی معاشی پالیسیوں اور ایلیٹ کلاس کی مراعات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کی ایک ٹویٹ میں کہا گیا:
"حکومت کو آئے ساڑھے تین سال ہو چکے، مگر عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ ایلیٹ کلاس کی مراعات میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ عام پاکستانی کی زندگی مزید کٹھن ہو گئی ہے۔”
یہ مناظر پہلے بھی دیکھے گئے ہیں: تحریک انصاف کی مثال
سیاسی ماہرین کے مطابق یہ صورتحال تحریک انصاف کے اقتدار کے ابتدائی برسوں سے مشابہت رکھتی ہے۔ 2020 میں پی ٹی آئی حکومت کو بھی اپنے حامیوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، خاص طور پر مہنگائی اور پیٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے۔
اب ن لیگ کو اسی قسم کے سوالات، طعنوں اور احتجاجی آوازوں کا سامنا ہے، مگر اس بار اپنے ہی حلقے زیادہ مایوس اور برہم نظر آتے ہیں۔
تنقید میں وزن رکھنے والے نام بھی شامل
تنقید محض عام سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے نہیں ہو رہی، بلکہ وہ شخصیات بھی اس میں شامل ہو چکی ہیں جو ماضی میں ن لیگ کے حامی یا قریب سمجھے جاتے تھے۔
محسن بیگ، جو کہ ایک معروف صحافی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی سمجھے جاتے تھے، اب ن لیگ کے دور حکومت میں بھی حکومت کی پالیسیوں پر سخت اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو براہ راست ٹیگ کرتے ہوئے بجلی کے نرخوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں فوری کم کرنے کا مطالبہ کیا۔میاں داؤد، جو کہ ایک سرگرم وکیل اور سپریم کورٹ کے سابق جج کے خلاف ریفرنس دائر کر کے خبروں میں آئے، بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ناکام قرار دے چکے ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی مایوسی اور تنقید کا رنگ غالب ہے۔
حکومت کے اندر سے آوازیں: خواجہ آصف کی بے باکی
تنقید صرف باہر سے نہیں، بلکہ ن لیگ کی قیادت کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں اسپیکر، چیئرمین سینیٹ اور اراکین اسمبلی کی مراعات میں اضافے پر برملا اعتراض کیا اور اسے عام آدمی کے ساتھ زیادتی قرار دیا۔
یہ تنقید طے شدہ ہے یا فطری؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اس تنقیدی لہر کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی ہے یا یہ فطری ردعمل ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لامار یونیورسٹی (امریکہ) میں شعبہ ابلاغیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اویس سلیم نے کہا:
"جب آپ کا اپنی حکومت سے ذاتی طور پر نقصان ہو رہا ہو تو آپ کا رویہ بدل جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب سپورٹر محض نام یا جماعت پر یقین نہیں کرتا بلکہ وہ پیغام کے اندر جھانکنے لگتا ہے۔ یہی تبدیلی ن لیگ کے حلقوں میں ہو رہی ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا:
"چار بجٹ گزرنے کے بعد بھی جب حالات میں بہتری نہ آئے تو سوشل میڈیا کی مدح سرائی سوالات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ لوگ اب نتائج چاہتے ہیں، بیانیے نہیں۔”
گڈ کاپ، بیڈ کاپ: نواز شریف کی ’سیاسی حکمت‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ تنقید کا مرکز وزیر اعظم شہباز شریف ہیں، نہ کہ نواز شریف۔
ڈاکٹر اویس سلیم اس صورت حال کو "ن لیگ کی گڈ کاپ-بیڈ کاپ حکمت عملی” قرار دیتے ہیں:
"عام ورکر اب بھی نواز شریف کو امید کی کرن سمجھتا ہے۔ انہوں نے تنقید کے لیے شہباز شریف کو آگے کیا ہوا ہے اور خود کو ایک ‘صاف ستھرا رہنما’ کے طور پر محفوظ رکھا ہے۔”
ن لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی یا موقع؟
حکومت کو اپنے حامیوں کی تنقید کو محض وقتی ردعمل سمجھ کر نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سیاسی مزاج کی تبدیلی ہے، جسے نظرانداز کرنا آئندہ انتخابات میں سنجیدہ نتائج دے سکتا ہے۔
اگر مسلم لیگ ن واقعی عوامی توقعات پر پورا اترنا چاہتی ہے تو اسے حقیقی ریلیف، شفاف اصلاحات اور سنجیدہ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے اپنے وفادار ووٹرز کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔