کالمزناصف اعوان

حقائق سے انحراف ممکن نہیں !……ناصف اعوان

جتنے بھی دولت مند ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر نے اپنی زندگیوں کو پُر آسائش وخوشگوار بنانے میں بڑی تگ و دو کی ہوتی ہے۔

ملک میں پائی جانے والی سیاسی اور معاشی بے چینی ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اصافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جسے غریب عوام تو کافی محسوس کر رہے ہیں مگر اہل زر و اقتدار پُر سکون ہیں ان کو زندگی کی ہر آسائش میسر ہے ۔ ان کے مطابق غریب عوام کو سہولتیں اور آسانیاں مہیا کرنا ان کی زمہ داری نہیں وہ محنت کریں اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
جتنے بھی دولت مند ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر نے اپنی زندگیوں کو پُر آسائش وخوشگوار بنانے میں بڑی تگ و دو کی ہوتی ہے۔ہم نے بڑے امیروں کے انٹر ویوز پڑھے ہیں بعض سے بہ نفسِ نفیس بھی دریافت کیا کہ وہ امیر کیسے بنے؟ اس پر انہوں نے یہی بتایا کہ وہ پہلے بہت غریب تھے نوبت فاقہ کّشی تک بھی پہنچی مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنا سفر جاری رکھا ۔ راستوں کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے جانب منزل بڑھتے گئے وہ یہ جانتے تھے کہ جس طرح دن ایک جیسے نہیں رہتے اس طرح ان کی غربت بھی سدا نہیں رہے گی قدرت ان کو ضرور اس راستے پر رواں کردے گی جس پر چل کر ان کی خواہشوں کی تکمیل ہوتی ہو لہذا وہ چلتے گئے اور پھر زندگی انہیں مسکراتی ہوئی خوش آمدید کہہ رہی تھی ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ جدو جہد پر یقین نہیں رکھتے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے خوشحال ہونے کا خواب دیکھتے ہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ بہت سے اہل ثروت نے جو اربوں کھربوں دولت اکٹھی کی ہے وہ بڑی چالاکی اور ذہانت سے اکٹھی کی ہے یہی وجہ ہے کہ نچلی سطح تک لوٹ کھسوٹ جاری ہے کسی کو کسی کا کوئی احساس نہیں۔ ہیر پھیر سے پیٹ بھرنا عام ہو چکا ہے ملاوٹ کرکے راتوں رات غربت سے نجات حاصل کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اس میں کسی کی صحت پر مضر اثرات بر آمد ہوتے ہیں تو ہوں اس کی کوئی پروا نہیں۔ دوائیں جعلی فروخت کرکے تجوریاں بھری جائیں جاں بلب مریض بستر پر لیٹا ہے تو لیٹا رہے بس پیسے کی دوڑ میں آگے نکلنا ہے ۔ یہ مسائل کیسے حل ہوں گے اس سے متعلق کوئی نہیں سوچ رہا۔ سماجی مسائل کا حل شاید حکمرانوں کے پاس نہیں یہ تو معاشرے کے افراد کو خود ہی چاہیے کہ وہ انہیں ختم کرنے کی طرف آئیں ملاوٹ سے رُک جانا جھوٹ بول کر اپنی مصنوعات بیچنا قیمت کچھ بتانا وصول کچھ کرنا نقلی کو اصلی بتانا اس میں حکومت کہاں ملوث ہے ؟ یہ تو واضح طور سے انفرادی فعل ہے جنہیں انفرادی سطح پر سر زد ہونے سے روکا جا سکتا مگر نہیں زندگی کی گاڑی چلانا مقصود ہے سو اسے آنکھیں بند کرکے چلایا جا رہا ہے یوں سوائے چند فیصد کے باقی سب لوگ ایک دوسرے کو دغا دے رہے ہیں ہوشیاری دکھا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان پر کسی کی کوئی نصیحت کوئی دانش اثر انداز نہیں ہو رہی ایسے بگڑے سماج کو سدھارنا خاصا مشکل ہے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ تبدیل نہیں ہو سکتا وہ تبدیل ہو سکتا ہے اگر وہ خود چاہے اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو دو طریقے ہیں اس کو سدھارنے کے کہ سرکار کی طرف سے ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جو ہر شہری کو تمام ضروری لوازمات فراہم کرنے کا انتظام کرے اگر وہ یہ نہیں کرتا تو قوانین کے ذریعے ان ساری خرابیوں کو سختی سے روکے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہمارا سماج ایسی کوئی تبدیلی چاہتا ہے جس میں دوسروں بارے مثبت سوچا جاتا ہو کسی کو دھوکا نہ دیا جائے ناجائز منافع خوری نہ ہو بیواؤں یتیموں اور کمزوروں کی جائیدادوں کو ہتھیایا نہ جاتا ہو کسی کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھا جائے بہت کم لوگ ہیں جو ایسی تبدیلی کے خواہشمند ہیں اور جب وہ اس کا اظہار کرتے ہیں تو ان کا مزاق اڑایا جاتا ہے ۔
یہ جو پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لگا رہی ہے وہ جزباتی ہے اس کے ساتھ جتنے بھی لوگ ہیں ان میں زیادہ تر موجودہ نظام نہیں بدلنا چاہتے اگرچہ وہ کہتے ضرور ہیں مگر عملاً نہیں چاہتے کیونکہ ان کا روزگار اس نظام سے جڑا ہوا ہے اسی لئےاپنے دور اقتدار میں ان میں سے جس کا بھی داؤ لگا خوب لگایا آئندہ جب کبھی ان کی جماعت بر سر اقتدار آئی تو وہ بہتی گنگا میں لازمی ہاتھ دھوئیں گے لہذا عمران خان کو چاہیے کہ خوامخواہ خود کو اذیت میں مبتلا نہ کریں انا کے حصار سے باہر آئیں
وہ کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر غور کریں ۔ ویسے اب آئندہ ہونے والے ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں بھی باہر آسکتے ہیں اس احتجاج میں ان کے بیٹے بھی شامل ہونگے ان کے ہمراہ امریکا برطانیہ یورپی یونین کی سرکاری وغیر سرکاری شخصیات کے علاوہ عالمی میڈیا کے چوٹی کے صحافی بھی ہوں گے اس طرح ایک نیا سیاسی منظر نامہ ابھرنے والا ہے ۔بہر حال اب جب وہ جیسے بھی رہا ہوتے ہیں تو کم از کم اپنے کارکنان ووٹرز اور سپوٹرز کو سماجی مسائل حل کرنے کی تحریک و ترغیب دیں ایسا وہ آسانی سے کر سکتے ہیں اور یہ ایک انقلاب ہوگا انہیں تو اقتدار کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اس سے یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ ان کے حامیوں میں کتنے ہیں جو واقعتاً نظام مساوات چاہتے ہیں اور کتنے نہیں چاہتے ؟
چلئے! یہ تو بعد کی باتیں ہیں فی الحال تو ہمیں بحرانوں نے بُری طرح سے گھیر رکھا ہے جس سے ہمارے بد خواہ پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں بھارت‘ اسرائیل اور امریکا گھات لگائے بیٹھے ہیں لہذا اختیارات کے مراکز کو چاہیے کہ وہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز سے تلاش کریں پابندیاں ‘ جکڑ بندیاں اور رکاوٹیں غیر ضروری ہیں۔ ہکجہتی کی فضا ایسے قائم نہیں ہو گی یاد رہے کہ اگر یک جہتی قائم نہیں ہوتی تو معیشت بھی مستحکم نہیں ہوگی لہذا فریقین کو چاہیے کہ وہ ضد کو چھوڑیں‘ بہت ہوچکا ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں عوام کی حالت روزبروز پتلی سے پتلی ہوتی جا رہی ہے جسے نظر انداز کیا جاتا ہے تو ہم کسی بھی بحران سے چھٹکارا نہیں پا سکتے لہذا ہمیں شکوے شکایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ دشمنان وطن انگشت بدنداں رہ جائیں ایسا کرنے سے ہم اصل میں امن اور خوشحالی کے سفر کا آغاز بھی کر رہے ہوں گے ہم سےایک برس کے بعد آزاد ہونے والے ملک چین نے ہوشربا ترقی کر لی ہے اور ایک ارب کے قریب اپنے لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لے آیا ہے ہم کیوں ایسا نہیں کر سکتے ؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button