
"حنظلہ” کشتی اٹلی سے غزہ کے لیے روانہ، اسرائیلی ناکہ بندی چیلنج — انسانی حقوق کارکنان کی عالمی بیداری کی کوشش
کشتی میں غزہ کے بچوں کے لیے ضروری خوراک، ادویات اور طبی آلات بھی موجود ہیں، جنہیں ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرالر کے ذریعے لایا گیا ہے
روم/غزہ (بین الاقوامی نمائندہ)
بحرِ روم کی لہروں پر انسانیت کا پیغام لیے، اٹلی کے ساحل سے "حنظلہ” نامی امدادی کشتی غزہ کی جانب روانہ ہو گئی ہے۔ یہ کشتی نہ صرف امدادی سامان لے کر جا رہی ہے بلکہ ایک علامتی احتجاج اور انسانی حقوق کے لیے پکار بھی ہے، جو مقبوضہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری ناکہ بندی، انسانی المیے، اور مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال کے خلاف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کارکنان کا قافلہ
اتوار کے روز اٹلی کے جزیرے سسلی کی بندرگاہ سے روانہ ہونے والی اس کشتی کا نام "حنظلہ” فلسطینی مزاحمت اور بےبسی کی علامت کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ "فریڈم فلوٹیلا اتحاد” کے تحت روانہ ہونے والی اس کشتی پر 15 انسانی حقوق کارکنان سوار ہیں، جن میں مختلف ممالک، بالخصوص یورپ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ کشتی کے سفر کا مقصد نہ صرف امدادی سامان پہنچانا ہے بلکہ عالمی برادری کی توجہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی جانب مبذول کروانا بھی ہے۔
روانگی سے قبل بندرگاہ پر درجنوں انسانی حقوق کے کارکن، جنگ مخالف مظاہرین اور فلسطین سے یکجہتی رکھنے والے شہری موجود تھے۔ انہوں نے کشتی کو رخصت کرتے وقت فلسطینی کیفیہ پہن رکھا تھا اور فضا "فری فلسطین” اور "غزہ کی ناکہ بندی ختم کرو” جیسے نعروں سے گونج رہی تھی۔
کشتی کا راستہ اور امدادی سامان
یہ کشتی تقریباً 1800 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی اور بحیرہ روم میں ایک ہفتے کا سفر کرے گی۔ اس دوران جنوبی اٹلی کی بندرگاہ گیلی پولی پر ایک مختصر قیام متوقع ہے، جہاں فرانس سے مزید انسانی حقوق کارکنان اس قافلے میں شامل ہوں گے۔ کشتی میں غزہ کے بچوں کے لیے ضروری خوراک، ادویات اور طبی آلات بھی موجود ہیں، جنہیں ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرالر کے ذریعے لایا گیا ہے۔
غزہ: محاصرہ، قحط، اور نسل کشی
یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے مارچ 2025 کے آغاز میں غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرتے ہوئے وہاں امدادی سامان، خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی فراہمی تقریباً بند کر دی تھی۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کے مطابق غزہ میں اس وقت قحط کی سی صورت حال ہے اور لاکھوں افراد شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ اگرچہ عالمی دباؤ کے تحت مئی کے اواخر میں کچھ محدود امداد کی اجازت دی گئی، تاہم صورتحال اب بھی انتہائی سنگین ہے۔
غزہ میں جاری جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 57,882 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں انسانی بحران کو دنیا کے بدترین المیوں میں شمار کیا ہے، تاہم اسرائیلی ناکہ بندی بدستور قائم ہے۔
اسرائیلی رکاوٹیں اور گزشتہ کوششیں
اس سے قبل، ایک اور کشتی "میڈلین” ڈیڑھ ماہ قبل اسی نوعیت کی امداد اور پیغام لے کر غزہ کی طرف روانہ ہوئی تھی، جسے اسرائیلی نیوی نے غزہ کے ساحل سے تقریباً 185 کلومیٹر دور روک دیا تھا۔ اس کے بعد سواروں کو گرفتار کر کے زبردستی واپس بھیج دیا گیا تھا۔ "حنظلہ” کشتی کا سفر اسی تسلسل کی ایک نئی کوشش ہے، جس میں کارکنان نے پرامن طریقے سے انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
"حنظلہ” مشن کی آواز: خاموشی ختم کرنے کا عزم
اس مشن میں شریک ایک فرانسیسی کارکن گیبریل کیتھلا نے روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،
"ہم یہاں غزہ کے بچوں کے لیے آواز بننے آئے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف امداد پہنچانا نہیں بلکہ اس غیر انسانی ناکہ بندی کو چیلنج کرنا ہے۔ اگر ہم غزہ نہ پہنچ سکے تو کم از کم ہم اسرائیل کی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب ضرور کریں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ 18 جولائی کو فرانس سے مزید کارکنان اس قافلے میں شامل ہوں گے اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے یہ مہم جاری رہے گی۔
عالمی برادری سے عملی اقدامات کا مطالبہ
فریڈم فلوٹیلا اتحاد اور کشتی کے منتظمین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموشی ختم کی جائے اور صرف بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جائے اور غزہ میں انسانی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔
"حنظلہ” ایک امید کی کرن
"حنظلہ” محض ایک کشتی نہیں بلکہ ایک امید، ایک احتجاج، اور انسانی اقدار کی پاسداری کی علامت ہے۔ اس سفر میں شامل کارکنان دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ خاموشی جرم ہے، اور اگر عالمی ادارے اور حکومتیں اپنی ذمے داریاں پوری نہ کریں تو سول سوسائٹی اپنی آواز بلند کرتی رہے گی۔
غزہ کی تباہی اور وہاں کے بچوں کی چیخیں پوری دنیا سن رہی ہے۔ اب یہ عالمی طاقتوں کی آزمائش ہے کہ وہ صرف دیکھنے والے رہیں گے یا کچھ کر کے دکھائیں گے۔