
جرمن ڈاکٹر موت کا فرشتہ کیسے بنا؟
12 خواتین اور تین مردوں کو قتل کیا۔ چالیس سالہ اس '' پیلی ایٹیو کیئر اسپیشلسٹ‘‘ پر 25 تا 94 سال کی درمیانی عمر کے پندرہ مریضوں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔
اس ڈاکٹر کو جرمن میڈیا میں ”ڈاکٹر ڈیتھ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مبینہ طور پر وہ ” پیلی ایٹیو کیئر‘‘ یا ”تسکین بخش نگہداشت‘‘ جسے سکون آور دیکھ بھال کا مرکز بھی کہا جا سکتا ہے، میں مہارت حاصل کرنے سے پہلے ایک ریڈیالوجسٹ اور جنرل پریکٹیشنر کے طور پر تربیت یافتہ تھا۔
” لوگ قتل کیوں کرتے ہیں‘‘
ایک طبیب مریضوں کی صحت یابی نہیں بلکہ ان کی زندگی کو کم کرنے اور انہیں موت کی نیند سلا دینے جیسے جرم کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے؟ ژوہانس ایم پر قتل کے الزام میں ان کے خلاف ہونے والی تفتیشی کارروائیوں میں بہت سے پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں معروف جرمن اخبار ”ڈی سائیٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ڈاکٹر نے 2013 ء میں اپنا ڈاکٹورل تھیسز جمع کروایا تھا، جس میں اُس نے فرینکفرٹ میں ہونے والی قتل کی ایک سیریز کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے تھیسز کے متن کے ابتدائی الفاظ ہی یہ تھے:” لوگ قتل کیوں کرتے ہیں؟‘‘

خطرے کی گھنٹی
ڈاکٹر ژوہانس ایم کی ان مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں خطرے کی گھنٹی سب سے پہلے جولائی 2024 ء میں ان کے ایک ہم کار نے بجائی تھی۔ اس مشتبہ ڈاکٹر کے بارے میں مریضوں کو خاموشی سے ابدی نیند سلانے اور ان کا سفر زندگی ختم کرنے کے لیے ان کے گھروں کو آگ تک لگا دینے جیسے جرائم میں ملوث ہونے کا شبہ اُس وقت ہوا جب اُس کے متعدد مریض آگ لگنے سے ہلاک ہوئے۔
اس ڈاکٹر کو گزشتہ برس اگست میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تب استغاثہ نے ابتدائی طور پر اس کی سرگرمیوں کو چار اموات سے جوڑا تھا۔ تاہم تفتیش کاروں نے جلد ہی متعدد مریضوں کی اموات کی وجوہات کی تحقیقات کے بعد ڈاکٹر ژوہانس کو ان کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا۔ اپریل میں استغاثہ نے ژوہانس ایم پر15 مریضوں کے قتل کے الزامات عائد کیے۔
دریں اثناء استغاثہ کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ مزید 96 کیسز کی تحقیقات جاری ہیں، جن میں ڈاکٹر ژوہانس ایم کی ساس کی موت بھی شامل ہے۔
کیا اس ڈاکٹر نے اپنی ساس کو بھی ہلاک کیا؟
ڈاکٹر ژوہانس ایم کی ساس پولینڈ میں رہتی تھیں۔ وہ ایک عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ژوہانس ایم اور ان کی اہلیہ 2024 ء کے اوائل میں پولینڈ میں ان سے ملنے گئے تھے ۔ ان کی موت اُسی ہفتے کے آخر میں انتہائی پراسرار طور پر واقع ہوئی۔

استغاثہ کا کہنا کیا ہے؟
جرمن استغاثہ کا کہنا ہے، ”ڈاکٹر یوہانس ایم کے تمام 15 مقدمات میں یہ بات مشترک نظر آئی کہ وہ اپنے مریضوں کو ان کی مرضی یا علم کے بغیر بے ہوشی اور پٹھوں کو مفلوج کرنے والی دوائیں دیا کرتے تھے۔
ان میں سے ایک دوا تو ایسی تھی جس سے مبینہ طور پر مریض کے عمل تنفس کے پٹھے مفلوج ہو گئے، جس کے نتیجے میں مریض سانس نہ لے سکے اور چند منٹوں میں ان کی موت واقع ہو گئی۔
پانچ مختلف واقعات میں ڈاکٹر ژوہانس ایم نے مبینہ طور پر انجیکشن لگانے کے بعد متاثرہ افراد کے فلیٹس یا رہائش کو آگ لگا دی۔ ایک موقع پر ان پر ایک ہی دن میں دو مریضوں کو قتل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔‘‘
ایک ہی دن میں دو مریضوں کا قتل؟
ژوہانس ایم پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے جولائی 2024ء کی صبح برلن کے ضلع کروئسبرگ میں ایک 75 سالہ شخص کو اس کے گھر میں قتل کیا۔ چند گھنٹوں بعد، انہوں نے مبینہ طور پر برلن کے ایک اور علاقے نوئے کؤلن میں ایک 76 سالہ خاتون پر مبینہ طور پر حملہ کیا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔
استغاثہ کے مطابق اس ڈاکٹر نے خاتون کے اپارٹمنٹ میں آگ لگائی، تاہم وہ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ جب ژوہانس ایم کو اس بات کا علم ہوا، تو اس نے مبینہ طور پر خاتون کے ایک رشتہ دار کو اطلاع دی اور دعویٰ کیا کہ وہ فلیٹ کے باہر موجود ہے، لیکن کوئی دروازہ کھول نہیں رہا۔‘‘

ڈاکٹر ژوہانس ایم پر ایک اور جرم کا الزام بھی ہے۔ اس کیس کے مطابق انہوں نے ایک 56 سالہ مریض کے بارے میں جھوٹا دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس کی جان بچانے کی کوشش کی تھی۔ متاثرہ شخص کو ابتدائی طور پر ریسکیو ٹیم نے زندہ رکھا، تاہم وہ تین دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
ڈاکٹر یوہانس ایم نے اب تک خود پر لگے الزامات کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
تسکین بخش یا سکون آور دیکھ بھال ایک ایسی طبی نگہداشت ہے جو ان مریضوں کے لیے فراہم کی جاتی ہے جنہیں کوئی سنگین، دائمی یا جان لیوا بیماری لاحق ہو۔ اس کا مقصد بیماری کا علاج کرنا نہیں بلکہ:
۔ درد اور دیگر علامات کو کم کرنا
۔ مریض کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بہتر بنانا
۔ اور مریض اور اس کے خاندان کو جذباتی و نفسیاتی سہارا دینا شامل ہے۔
یہ نگہداشت کینسر، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کی بیماری، گردوں کی ناکامی یا الزائمر جیسے امراض میں دی جاتی ہے اور یہ بیماری کے کسی بھی مرحلے پر شروع کی جا سکتی ہے۔

جرمنی میں مریضوں کے قتل کے واقعات
یہ کیس جرمن نرس نیلس ہوئگل کے معاملے کی یاد دلاتا ہے، جسے سن 2019 ء میں 85 مریضوں کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ہوئگل، جسے جرمنی کا سب سے بدنام سیریل کلر سمجھا جاتا ہے، نے 2000ء سے 2005 ء کے درمیان ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کو مہلک انجیکشن دے کر قتل کیا اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھا جب تک کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑی نہ گئی۔
ایک دیگر حالیہ واقعے میں 2023ء میں ایک 27 سالہ نرس کو دو مریضوں کو غیر تجویز کردہ ادویات دے کر قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
مارچ میں، ایک اور نرس پر جرمن شہر آخن میں مقدمہ چلا، جس پر الزام تھا کہ اس نے 26 مریضوں کو سکون آور یا درد کم کرنے والی ادویات کی بھاری مقدار دی، جس کے نتیجے میں نو مریضوں کی اموات ہوئیں۔
گزشتہ ہفتے، جرمن پولیس نے انکشاف کیا کہ وہ ایک اور ڈاکٹر کی تحقیقات کر رہی ہے، جس پر شبہ ہے کہ اس نے کئی، بالخصوص معمر مریضوں کو قتل کیا۔
پولیس اور استغاثہ کے مطابق، تفتیش کار شمالی جرمنی کے شہر پِینے برگ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ژوہانس ایم سے منسلک اموات کا جائزہ لے رہے ہیں، جو ہیمبرگ کے مضافات میں واقع ہے۔