
بلوچستان میں اسسٹنٹ کمشنر کا اغوا: تین ماہ میں دوسرا واقعہ، سیکیورٹی صورتحال پر سوالیہ نشان
عینی شاہدین اور ابتدائی معلومات کے مطابق اچانک کئی مسلح افراد موقع پر پہنچے اور اسلحے کے زور پر چاروں افراد کو اغوا کر لیا۔ تاہم کچھ فاصلے پر جا کر اغوا کاروں نے ڈرائیور اور محافظ کو رہا کر دیا
زیارت / کوئٹہ: بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئی ہے۔ زیارت کے نواحی علاقے کلی زیزری سے اتوار کی شام مسلح افراد نے اسسٹنٹ کمشنر محمد افضل اور ان کے 16 سالہ بیٹے محمد بلال کو اغوا کر لیا۔ یہ تین ماہ کے دوران صوبے میں کسی اسسٹنٹ کمشنر کے اغوا کا دوسرا واقعہ ہے، جس نے انتظامی مشینری اور شہری حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
ضلع زیارت کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنر محمد افضل اپنی فیملی کے ہمراہ پکنک کے لیے کلی زیزری گئے تھے، جو کہ زیارت شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا، ڈرائیور فرحت اللہ اور سرکاری محافظ ثناء اللہ بھی موجود تھے۔
عینی شاہدین اور ابتدائی معلومات کے مطابق اچانک کئی مسلح افراد موقع پر پہنچے اور اسلحے کے زور پر چاروں افراد کو اغوا کر لیا۔ تاہم کچھ فاصلے پر جا کر اغوا کاروں نے ڈرائیور اور محافظ کو رہا کر دیا، جبکہ اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے کمسن بیٹے کو اپنے ساتھ نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق، اغوا کار پیدل آئے اور پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ جاتے ہوئے وہ اسسٹنٹ کمشنر کی سرکاری گاڑی کو بھی نذر آتش کر گئے، جو کہ سرکاری ملکیت تھی۔
فوری ردعمل
واقعے کی اطلاع ملتے ہی لیویز فورس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کی بھاری نفری علاقے میں پہنچ گئی اور اغوا شدگان کی بازیابی کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا۔ تاہم پیر کی صبح تک مغویوں کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آ سکی۔
تاحال صوبائی حکومت یا کسی اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی جانب سے واقعے پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ سیکیورٹی ادارے اغوا کاروں کی شناخت اور ان کے ممکنہ ٹھکانوں کے بارے میں خاموش ہیں، جبکہ عوام اور متاثرہ خاندان کسی اچھی خبر کے منتظر ہیں۔
تین ماہ میں دوسرا واقعہ
اس واقعے نے صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔ رواں سال جون میں ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کو اغوا کیا گیا تھا۔ ان کے اغوا کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی تھی۔ محمد حنیف نورزئی کو تاحال بازیاب نہیں کرایا جا سکا، جو حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔
زیارت میں پیش آنے والے تازہ واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم یا گروہ نے قبول نہیں کی، تاہم ماضی میں بلوچ عسکریت پسند اس علاقے میں متعدد کارروائیاں کر چکے ہیں۔
زیارت کا پس منظر
زیارت بلوچستان کے شمال میں واقع ہے اور یہ قدرتی خوبصورتی، سرسبز صنوبر کے جنگلات اور تاریخی اہمیت کے باعث سیاحوں میں خاصی مقبولیت رکھتا ہے۔ یہاں کی اکثریتی آبادی پشتون ہے۔ لیکن اس خوبصورتی کے پس پردہ، علاقے کو شدت پسندی اور بدامنی کا سامنا بھی رہا ہے۔
جون 2013 میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے یہاں واقع قائداعظم ریزیڈنسی کو تباہ کر دیا تھا، جسے بعد میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ جولائی 2022 میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے افسر لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا اور ان کے رشتہ دار کو اسی علاقے میں اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
خدشات اور عوامی ردعمل
مقامی آبادی اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے اغوا کے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اعلیٰ سرکاری افسران بھی محفوظ نہیں تو عام شہری کس حال میں ہوں گے؟ سوشل میڈیا پر بھی واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے، اور حکومت سے فوری اور مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات نہ صرف عوامی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں بلکہ بلوچستان میں پہلے سے نازک سیکیورٹی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔



