پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

پنجاب میں نویں اور دسویں جماعت کے مایوس کن نتائج پر محکمہ تعلیم کا بڑا اقدام — خراب کارکردگی والے اساتذہ کی برطرفی کا فیصلہ، رانا سکندر حیات کا سخت مؤقف

ہمیں اگر تعلیم کو سنوارنا ہے تو ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ ایک استاد کا فرض صرف اسکول آنا نہیں، بلکہ اپنے طلبہ کو علم دینا اور ان کی کامیابی کی ضمانت بننا ہے

سید عاطف ندیم-پاکستا،وائس آف جرمنی کے ساتھ

پنجاب بھر میں نویں اور دسویں جماعت کے حالیہ سالانہ امتحانات میں مایوس کن نتائج سامنے آنے پر محکمہ تعلیم نے ناقص کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ جن اساتذہ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی، انہیں ان کی ملازمتوں سے برطرف کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

امتحانی نتائج نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

رواں سال پنجاب بھر کے سرکاری اسکولوں میں نویں اور دسویں جماعت کے نتائج نے حکام کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ متعدد سرکاری اسکولوں میں کامیابی کا تناسب نہایت کم رہا، بعض اداروں میں کامیابی کی شرح 20 فیصد سے بھی کم رہی، جبکہ کئی اسکولوں میں تمام طلبہ ناکام قرار دیے گئے۔

ان مایوس کن اعداد و شمار کے بعد وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے فوری ایکشن لیتے ہوئے براہِ راست ناقص کارکردگی والے اساتذہ کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ بھی کر لیا۔

رانا سکندر حیات کا دو ٹوک مؤقف

وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

وزیر تعلیم  نے خبردار کیا ہے کہ احتساب اپنے ضلع اور تحصیل کے سکولوں سے کروں گا۔

"ہمیں اگر تعلیم کو سنوارنا ہے تو ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ ایک استاد کا فرض صرف اسکول آنا نہیں، بلکہ اپنے طلبہ کو علم دینا اور ان کی کامیابی کی ضمانت بننا ہے۔ جو استاد اس بنیادی فرض میں ناکام رہے گا، وہ ہمارے نظام کا حصہ نہیں رہ سکتا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ صرف وہی استاد نظام تعلیم میں رہے گا جو نتائج دے گا۔ ناقص کارکردگی، غیر سنجیدہ رویہ اور طلبہ کی ناکامی کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی، چاہے وہ کسی بھی گریڈ کا افسر یا استاد ہو۔

رانا سکندر حیات کا کہنا تھا کہ اچھے نتائج دینے والے اساتذہ کی بھی فہرست تیار کی جارہی ہے،اچھے نتائج پر اساتذہ کو انعامات سے بھی نوازا جائے گا۔

کارروائی کی تفصیلات

محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، ان اسکولوں اور اساتذہ کی فہرستیں مرتب کر لی گئی ہیں جن کے طلبہ کے نتائج تسلی بخش نہیں تھے۔ ابتدائی مرحلے میں ان اساتذہ کو شوکاز نوٹسز جاری کیے جائیں گے، ان کی انکوائری کی جائے گی، اور ثبوتوں کی روشنی میں انہیں برطرفی کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں تقریباً 1,200 اساتذہ کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، جن کی کارکردگی انتہائی خراب رہی ہے۔ ان میں سے اکثر اسکول دیہی علاقوں اور پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں تعلیمی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے۔

اساتذہ تنظیموں کا ردعمل

پنجاب ٹیچرز یونین اور دیگر اساتذہ تنظیموں نے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ٹیچرز یونین کے صدر ملک افتخار حسین نے بیان میں کہا:

"اساتذہ کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ ناکامی کی ذمہ داری صرف اساتذہ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سہولیات، تربیت، اور کورس مواد کی فراہمی پر بھی توجہ دے۔”

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اساتذہ کو بلاجواز برطرف کیا گیا تو صوبے بھر میں احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔

عوامی و ماہرین تعلیم کی رائے

جہاں ایک طرف یہ فیصلہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش سمجھا جا رہا ہے، وہیں ماہرین تعلیم کا ماننا ہے کہ محض اساتذہ کی برطرفی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے جامع اصلاحات، اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت، اور اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ناگزیر ہے۔

آگے کا لائحہ عمل

محکمہ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ اگلے تعلیمی سال سے ہر اسکول کی کارکردگی کی بنیاد پر سالانہ تشخیص کی جائے گی۔ اچھے نتائج والے اساتذہ کو انعامات دیے جائیں گے جبکہ خراب کارکردگی والوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔

یہ قدم اگرچہ متنازعہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ حکومت پنجاب تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اب سخت فیصلے کرنے کے موڈ میں ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ اقدامات تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button