
کاکس بازار روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیاں آج بھی شدید جنسی ہراسانی کا شکار، ایکشن ایڈ کی چشم کشا رپورٹ
عالمی ضمیر کے لیے سوالیہ نشان، پناہ گزینوں کی زندگی غیر محفوظ
کاکس بازار (بنگلہ دیش) / ڈھاکہ / جنیوا – عالمی امدادی تنظیم ایکشن ایڈ (ActionAid) کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے شہر کاکس بازار میں قائم روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیاں بدستور شدید جنسی ہراسانی، تشدد، استحصال اور غیر محفوظ ماحول کا سامنا کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ میانمار سے بے دخل کیے گئے لاکھوں روہنگیا افراد کو ان کی جان بچانے کے لیے پناہ دی گئی، لیکن ان کی زندگی اب بھی خوف، جبر اور بدسلوکی سے بھرپور ہے — خاص طور پر خواتین اور بچیوں کے لیے۔
رپورٹ کی تفصیلات: زندگی، لیکن عزت کے بغیر
ایکشن ایڈ کی جانب سے شائع کردہ اس تحقیقی رپورٹ
میں 12 تا 24 سال کی عمر کی 400 سے زائد خواتین اور لڑکیوں کے انٹرویوز شامل ہیں، جنہوں نے جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد، جسمانی حملوں، جبری شادیاں، اور انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم کے بارے میں چشم کشا انکشافات کیے۔
رپورٹ کے مطابق:
60 فیصد لڑکیاں روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی قسم کی جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں۔
بیشتر متاثرہ خواتین نے امدادی مراکز یا کیمپ میں موجود مردوں کی جانب سے نفسیاتی اور جنسی استحصال کی شکایت کی۔
نوجوان لڑکیوں کو اکثر "شادی” کے نام پر جنسی غلامی کے لیے خریدا یا بیچا جاتا ہے۔
بعض کیسز میں خواتین کو خوراک اور ادویات کے بدلے جنسی تعلق پر مجبور کیا گیا۔
🚨 کیمپوں کی سیکیورٹی پر سوالات
رپورٹ میں کیمپوں کی مجموعی سیکیورٹی، روشنی، خواتین کے لیے علیحدہ باتھ رومز اور رازداری کی شدید کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
رات کے وقت کیمپوں میں بجلی کا فقدان، محدود گشت،
اور کمزور نگرانی کی وجہ سے خواتین اور بچیاں مکمل طور پر غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔
ایکشن ایڈ کی نمائندہ، فرزانہ بیگم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
"یہ شرمناک ہے کہ پناہ کے نام پر دی گئی زندگی بھی ان خواتین کے لیے ایک مسلسل اذیت بن چکی ہے۔ پناہ گزین کیمپ محفوظ پناہ گاہیں بننے کے بجائے استحصال کے اڈے بنتے جا رہے ہیں۔”
💬 خواتین کی گواہیاں: خاموش اذیت کی چی
خیں
رپورٹ میں کئی متاثرہ خواتین کے گمنام انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ایک 17 سالہ لڑکی کا کہنا تھا:
"ہم رات کو خوف کے مارے سو نہیں سکتے۔ اگر باہر نکلیں تو مرد تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں، اگر چپ رہیں تو وہ اندر آ جاتے ہیں۔”
ایک 38 سالہ بیوہ خاتون نے بتایا:
"ہمیں خوراک تب ملتی ہے جب
ہم ’احسان‘ کا بدلہ دیں۔ ہم عزت یا شرم کی بات نہیں کر سکتے، کیونکہ یہاں سب کچھ بھوک کے رحم و کرم پر ہے۔”
نفسیاتی اور جسمانی اثرات
رپورٹ کے مطابق:
جنسی ہراسانی کا شکار خواتین کی اکثریت ڈپریشن، بے خوابی، اضطراب، اور خودکشی کے خیالات کا شکار ہو چکی ہے۔
کئی لڑکیاں تعلیم، تربیت اور صحت جیسے اہم مواقع سے محروم ہو گئی ہیں۔
زچگی کی سہولیات ناکافی ہیں، اور کم عمری میں جبری شادیاں ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
انسانی اسمگلنگ اور بین الاقوامی مجرمانہ نیٹ ورک
ایکشن ایڈ کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پناہ گزین کیمپوں میں انسانی اسمگلنگ کے منظم نیٹ ورک سرگرم ہیں، جو لڑکیوں کو خلیجی ممالک، ملائیشیا اور بھارت میں جبری مشقت اور جنسی استحصال کے لیے اسمگل کرتے ہیں۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اس نیٹ ورک میں بعض مقامی افراد اور کیمپ انتظامیہ کے افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں، جنہیں فوری طور پر بے نقاب اور سزائیں دی جانی چاہییں۔
مطالبات اور سفارشات
ایکشن ایڈ نے اپنی رپورٹ کے آخر میں متعدد سفارشات بھی پیش کی ہیں، جن میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
کیمپوں میں خواتین کے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کی جائیں۔
ہر کیمپ میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کی جائے۔
نفسیاتی و قانونی امداد کی سہولیات مہیا کی جائیں۔
انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
پناہ گزین خواتین کو تعلیم، تربیت اور مع
اشی خودمختاری کے مواقع دیے جائیں۔
عالمی ردعمل اور خاموشی کا طعنہ
رپورٹ کے اجرا کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بنگلہ دیش حکومت، اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم، تاحال کسی بڑے عالمی ادارے یا حکومتی سطح پر واضح پالیسی یا ردعمل سامنے نہیں آیا، جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ دنیا نے روہنگیا خواتین کو "ایک بار پھر تنہا چھوڑ دیا ہے”۔
نتیجہ: کیمپ بچ گئے، عورتیں نہیں
کاکس بازار کے پناہ گزین کیمپ بظاہر لاکھوں جانیں بچا چکے ہیں، مگر ان کے اندر جاری جنسی استحصال، غیر محفوظ ماحول اور خاموش اذیت نے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے زندگی کو ایک مسلسل جہنم بنا دیا ہے۔
اگر عالمی برادری نے فوری اور عملی اقدامات نہ کیے تو یہ پناہ گزین کیمپ انسانیت کے ضمیر پر ایک مستقل داغ بنے رہیں گے۔
خواتین کی آواز
ایکشن ایڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فرح کبیر کے مطابق تحقیق میں خواتین کی آواز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ:
عوامی مقامات پر روشنی کا بہتر انتظام کیا جائے۔
APBN کی جگہ فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔
مردوں کو آگاہی مہمات میں شامل کیا جائے۔
تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔
روہنگیا خواتین کی اکثریت کا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی رہنماؤں پر اعتماد بہت کم پایا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین نے کہا کہ بدسلوکی کی صورت میں ان کے پاس کوئی جگہ ایسی نہیں ہوتی جہاں ان کی سنی جائے۔
اے پی بی این کے کمانڈنگ آفیسر کوثر سکدار نے تاہم کہا کہ وہ اپنی فورس کے خلاف ایسے کسی بھی الزامات سے آگاہ نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش نے 2024 کے اوائل سے میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ مزید 150,000 روہنگیا وہاں پہنچے ہیں۔





