پاکستانتازہ ترین

اقوام متحدہ کا امن قائم رکھنے کا نظام بحران کا شکار: پاکستان نے سلامتی کونسل کو فوری اقدامات کا مطالبہ کر دیا

دنیا بھر میں امن قائم رکھنے کی کارروائیاں — اب خود شدید دباؤ کا شکار ہو چکی ہیں

نیویارک (نمائندہ خصوصی) — پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں امن قائم رکھنے کے عالمی نظام کو بچانے کے لیے فوری، مؤثر اور مربوط اقدامات کرے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا امن مشن سسٹم اس وقت شدید بحران کا شکار ہے، اور اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو عالمی برادری ایک نہایت اہم سفارتی و اخلاقی آلہ کار سے محروم ہو جائے گی۔

یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل کے ایک اہم اجلاس میں کہی۔ یہ اجلاس "امن کارروائیوں کے مستقبل” کے موضوع پر بلایا گیا تھا، جس میں مختلف ممالک کے نمائندوں نے اقوام متحدہ کے امن مشنز کی موجودہ حالت اور مستقبل پر اظہار خیال کیا۔

امن قائم رکھنے کا عمل دباؤ میں، ردعمل کمزور: سفیر عاصم افتخار

اپنے خطاب میں سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی اور نمایاں کامیابی — یعنی دنیا بھر میں امن قائم رکھنے کی کارروائیاں — اب خود شدید دباؤ کا شکار ہو چکی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا میں تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں، مگر اقوام متحدہ کا ردعمل کمزور اور غیر مؤثر بنتا جا رہا ہے۔ ان کے بقول، یہ ایک نہایت خطرناک تضاد ہے، جو نہ صرف موجودہ مشنز کی کارکردگی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ادارے کی ساکھ کو بھی مجروح کر رہا ہے۔

نئے مشنز تعینات نہیں ہو رہے، موجودہ مشنز محدود یا بند ہو رہے ہیں

سفیر نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2014 کے بعد سے کوئی نیا امن مشن تعینات نہیں کیا گیا، جبکہ متعدد موجودہ مشنز یا تو مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں یا انہیں محدود کر کے ان کے دائرہ کار کو کم کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، جو امن مشنز اب بھی فعال ہیں، وہ شدید مالی قلت، عملی رکاوٹوں اور سیاسی بےحسی کا شکار ہیں، جو ان کے مینڈیٹ کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہیں۔

انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ "یہ صورتِ حال نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی مقاصد سے انحراف ہے بلکہ عالمی برادری کے اعتماد کو بھی مجروح کر رہی ہے۔”

"امن کارروائیاں ایک اخلاقی فرض اور اسٹریٹجک ضرورت ہیں”

سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ امن قائم رکھنے کی کارروائیاں صرف ایک متبادل یا اختیاری آپشن نہیں ہیں بلکہ یہ ایک اخلاقی فرض اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک اسٹریٹجک ضرورت ہیں۔ ان کے مطابق اگر ان مشنز کو ناکامی سے دوچار ہونے دیا گیا تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے لیے بلکہ پوری بین الاقوامی برادری کے لیے ایک سنگین دھچکا ہو گا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل اور رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ امن مشنز کے کردار کو محدود کرنے کی بجائے انہیں زیادہ مؤثر، وسائل سے لیس اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنائیں۔

فیصلہ سازی میں شراکت، فوجیوں کا تحفظ، اور مشنز کی وسعت پر زور

سفیر نے ان ممالک کے کردار کو بھی اجاگر کیا جو زمینی سطح پر امن قائم رکھنے کا عملی بوجھ اٹھاتے ہیں، اور کہا کہ ایسے ممالک کو اقوام متحدہ کی فیصلہ سازی میں مؤثر شرکت دی جانی چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے امن فوجیوں کے تحفظ، مشنز کے مینڈیٹ کی وسعت، اور جدید سیکیورٹی و سفارتی تقاضوں سے ہم آہنگی پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اقوام متحدہ کے امن مشنز کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اپڈیٹ نہ کیا گیا تو وہ محض رسمی کارروائیاں بن کر رہ جائیں گے، جن کا حقیقی دنیا کے بحرانوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

پاکستان کا تاریخی کردار: 2.5 لاکھ سے زائد اہلکاروں نے خدمات انجام دیں

اپنے خطاب کے دوران سفیر عاصم افتخار احمد نے اقوام متحدہ کے ساتھ پاکستان کی طویل وابستگی اور خدمات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاکستان کے 250,000 سے زائد فوجی اور سویلین اہلکار اقوام متحدہ کے 48 مختلف امن مشنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ان میں سے 182 اہلکاروں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جو کہ پاکستان کی بین الاقوامی امن کے لیے قربانیوں اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا، "ہمارے امن فوجیوں کی قربانیاں اقوام متحدہ کے چارٹر اور کثیرالجہتی نظام کے ساتھ ہماری وابستگی کی گواہی دیتی ہیں۔”

"امن قائم رکھنے کا عمل اس کونسل کی بنیادی ذمہ داری ہے”

سفیر عاصم نے اپنے خطاب کا اختتام اس اہم پیغام کے ساتھ کیا کہ امن قائم رکھنے کی ذمے داری سلامتی کونسل کی بنیادی اور اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق اگر یہ عمل ناکام ہوتا ہے تو یہ ان ہزاروں اہلکاروں کی قربانیوں کی توہین ہو گی جنہوں نے دنیا بھر میں امن کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس نظام پر اعتماد بحال کرے اور پائیدار امن کے لیے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو ایک بار پھر فعال، بااعتماد اور بااثر بنائے۔


سیاق و سباق:

واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں تنازعات کی نوعیت پیچیدہ ہو گئی ہے، جیسے کہ یوکرین، سوڈان، فلسطین، یمن، اور افریقی خطے کے دیگر تنازعات۔ تاہم اقوام متحدہ کی جانب سے امن قائم رکھنے کے اقدامات میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے، جو ماہرین کے مطابق ادارے کی افادیت پر سوالیہ نشان بن رہی ہے۔

پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل میں اٹھایا گیا یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر ان خدشات کی غمازی کرتا ہے، جو مختلف ترقی پذیر اور امن فوج فراہم کرنے والے ممالک میں پائے جا رہے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button