پاکستان پریس ریلیزتازہ ترین

پاکستان میں میتھین گیس کے اخراج میں کمی کی ضرورت: زرعی، ماحولیاتی اور صنعتی ماہرین کی سیمینار میں گفتگو

زراعت، خوراک اور ماحولیاتی پالیسیوں کے شعبے میں حکومت اور متعلقہ اداروں کے مابین مضبوط ربط اور تعاون کے بغیر گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا خواب ممکن نہیں۔

لاہور (نامہ نگار خصوصی): پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو سب سے زیادہ میتھین گیس خارج کرتے ہیں۔ یہ انکشاف زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ممتاز پروفیسر ڈاکٹر ثناء اللہ نے لاہور میں الٹرنیٹ ڈویلپمنٹ سروسز اور لوک سجاگ کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میتھین گیس کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ چاول اور گنے کی کاشت اور برداشت کے دوران ہونے والے زرعی عوامل ہیں جنہیں بہتر طریقوں سے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے "آلٹرنیٹو ویٹنگ اینڈ ڈرائنگ” (Alternate Wetting and Drying) جیسے آزمودہ طریقے کا حوالہ دیا، جو چاول کی کاشت کے دوران پانی کے استعمال کو کم کر کے میتھین کی مقدار میں خاطر خواہ کمی لا سکتا ہے۔ انہوں نے مال مویشیوں کے چارے اور فضلے سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں پر بھی روشنی ڈالی اور زور دیا کہ ان کے اخراج کو محدود کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سیمینار میں ملک بھر کی مختلف جامعات، فوڈ انڈسٹری سے وابستہ ایسوسی ایشنز، ماہرین ماحولیات اور کاروباری حلقوں کے نمائندگان نے شرکت کی اور اپنی تجاویز پیش کیں۔ ان کا متفقہ مؤقف تھا کہ زراعت، خوراک اور ماحولیاتی پالیسیوں کے شعبے میں حکومت اور متعلقہ اداروں کے مابین مضبوط ربط اور تعاون کے بغیر گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا خواب ممکن نہیں۔

چار سطحوں پر زہریلی گیسوں کا تخمینہ ضروری ہے: معظم رحمان

پائیدار صنعتی ترقی کے ماہر معظم رحمان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ قومی، تنظیمی، پراجیکٹ اور پراڈکٹ کی سطح پر زہریلی گیسوں کا باقاعدہ تخمینہ لگائے۔ ان کے مطابق کاربن اور میتھین میں کمی کے لیے عملی فریم ورک کی تیاری، اور عالمی معاہدات بشمول پیرس کلائیمیٹ اگریمنٹ، آئی پی سی سی سفارشات اور گرین ہاؤس گیسز پروٹوکول پر عمل درآمد ناگزیر ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان سنجیدگی سے 2050 تک "نیٹ زیرو” کا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے تو ابھی سے جامع اور قابل عمل پالیسیوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔

فضلے کو کھاد میں تبدیل کرنا ممکن مگر چیلنجز درپیش: ڈاکٹر محمد فرحان

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے وابستہ ماہر ماحولیات ڈاکٹر محمد فرحان نے کہا کہ فصلات، پھلوں اور سبزیوں کے باقی ماندہ اجزاء کو کمپوسٹ پراسیسنگ کے ذریعے زرخیز کھاد میں بدلا جا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شہری علاقوں سے حاصل ہونے والے فضلے میں اشیاء کی آمیزش اسے کمپوسٹ میں تبدیل کرنے کے عمل کو مشکل بنا دیتی ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ زرعی پیداوار کے مراکز میں ہی فضلہ کو علیحدہ کر کے پراسیس کرنے کے یونٹس قائم کیے جائیں تاکہ کھاد بنانے والی انڈسٹری کو معیاری خام مواد مل سکے۔ اس سے نہ صرف زمین کی زرخیزی بڑھے گی بلکہ ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

مربوط سیاسی، سماجی اور معاشی حکمت عملی کی ضرورت: امجد نذیر

الٹرنیٹ ڈویلپمنٹ سروسز کے ڈائریکٹر امجد نذیر نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ خوراک، زراعت اور تیار شدہ غذا کے شعبوں میں پیدا ہونے والی زہریلی گیسوں، نیز فضائی، زمینی اور آبی آلودگی کو روکنے کے لیے ایک مربوط سیاسی، سماجی اور معاشی حکمت عملی تشکیل دینا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بظاہر کم گیسیں خارج کرنے والا ملک ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی قومی و بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ زیرترتیب این ڈی سی 3.0 میں زراعت، مال مویشی، فاسٹ فوڈ انڈسٹری اور خوراک کے مختلف مراحل سے متعلق اخراج میں کمی کے واضح، شفاف اور قابل عمل اہداف مقرر کیے جائیں، اور ان کے حصول کے لیے مالی وسائل بھی مختص کیے جائیں۔

عام کسانوں کی رسائی ٹیکنالوجی تک محدود: آصف ریاض

زراعت پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی آصف ریاض نے کہا کہ فصلات کی باقیات کو جلانے سے بچانے والی جدید ٹیکنالوجی ایک عام کسان کی پہنچ سے باہر ہے۔ حکومت کی طرف سے دی جانے والی معاونت بھی ناکافی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو اس ضمن میں زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ جدید ٹیکنالوجی چھوٹے کسانوں تک بھی پہنچ سکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسانوں اور مارکیٹ کے درمیان متوازن اور قابل اعتماد رابطہ پیدا کیا جائے تو یہ نہ صرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کا باعث بنے گا بلکہ زرعی پیداوار میں استحکام اور پائیداری بھی آئے گی۔


خلاصہ:

یہ سیمینار اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی چیلنجز خصوصاً میتھین گیس کے بڑھتے ہوئے اخراج کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر حکومت، ماہرین، صنعت اور کسان ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کام کریں تو نہ صرف گرین ہاؤس گیسوں میں کمی ممکن ہے بلکہ پاکستان بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے بھی بچ سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button