یورپاہم خبریں

فرانس میں مساجد کے باہر خنزیر کے سر: نفرت کا نیا چہرہ یا بیرونی مداخلت؟

"یہ افراد سربیا کی گاڑی میں فرانس آئے، اور پیرس میں کارروائی کے بعد بیلجیئم کی سرحد عبور کر کے فرار ہو گئے۔"

پیرس – فرانس میں حالیہ دنوں ایک نہایت اشتعال انگیز، دل دہلا دینے والا اور مذہبی طور پر حساس واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب پیرس اور اس کے نواحی علاقوں کی نو مساجد کے باہر خنزیر کے کٹے ہوئے سر پائے گئے۔ ان واقعات نے نہ صرف فرانس کی مسلم کمیونٹی میں خوف و غم کی لہر دوڑا دی بلکہ پورے ملک میں اسلاموفوبیا اور مذہبی منافرت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔


ابتدائی واقعہ: جیول مسجد پر حملہ

یہ واقعہ نو اور دس ستمبر کی درمیانی شب اس وقت سامنے آیا جب پیرس کے معروف علاقے جیول مسجد کے باہر نمازیوں نے فجر کی نماز کے لیے آتے وقت مسجد کے دروازے پر خون میں لت پت خنزیر کا سر دیکھا۔ اس سر پر نیلی سیاہی میں لکھا ہوا تھا: "ماکروں” — جو بظاہر فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یہ مسجد لبنان، الجزائر، ایران اور دیگر مسلم ممالک کے باشندوں کی عبادت گاہ ہے اور ایفل ٹاور سے صرف ایک میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ مقام علامتی طور پر بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔


نہ صرف ایک، بلکہ نو مساجد نشانہ بنی

پولیس جب جائے وقوعہ پر پہنچی تو تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تنہا نہیں تھا۔ بلکہ پیرس اور نواحی علاقوں کی کم از کم نو مختلف مساجد کی دہلیز پر بھی خنزیر کے کٹے ہوئے سر رکھے گئے تھے، جو ایک منظم اور مربوط مہم کی نشاندہی کرتا ہے۔

فرانسیسی پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق، یہ تمام سر ایک ہی رات میں مختلف مقامات پر رکھے گئے اور اندازہ ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے ایک منظم منصوبہ بندی تھی۔


پولیس تفتیش: غیر ملکی مداخلت کا انکشاف

پولیس تفتیش میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ایک نارمنڈی کے کسان نے بتایا کہ دو افراد اس سے ایک درجن خنزیر کے سر خریدنے آئے تھے، جن کی گاڑی پر سربیا کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔

مزید تحقیق پر سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتا چلا کہ یہی افراد پیرس میں کئی مساجد کے سامنے خنزیر کے سر رکھتے ہوئے دیکھے گئے۔ فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ:

"یہ افراد سربیا کی گاڑی میں فرانس آئے، اور پیرس میں کارروائی کے بعد بیلجیئم کی سرحد عبور کر کے فرار ہو گئے۔"

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے کروشیا کی ٹیلی فون لائن استعمال کی، جس کا سراغ جرم کے بعد کی صبح ملا۔


مقصد: فرانس میں مذہبی بدامنی؟

فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ تمام شواہد اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ حملے جان بوجھ کر فرانس کے اندر بدامنی، مذہبی کشیدگی اور معاشرتی انتشار پھیلانے کے مقصد سے کیے گئے۔

"ان افراد نے ملک میں نفرت پھیلانے کی دانستہ کوشش کی، تاکہ معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔”
پیرس پراسیکیوٹر آفس

اس سے قبل بھی فرانس نے روس پر ایسی مداخلتوں کا الزام لگایا ہے۔ مئی 2025 میں تین سربیائی باشندوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن پر عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے اور ہولوکاسٹ یادگاروں کی بے حرمتی کرنے کا الزام تھا۔ ان پر بھی غیر ملکی طاقت سے روابط کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔


فرانسیسی حکومت کی مذمت اور حمایت کا اعلان

فرانسیسی وزیر داخلہ برونو ریٹیلیو نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا:

"یہ حملے صرف اشتعال انگیز ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مسلمان شہری بلا خوف اپنے مذہب پر عمل کریں۔"

انہوں نے فرانس کے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے اور اسلامو فوبیا کے خلاف عملی اقدامات کیے جائیں گے۔


مسلم قیادت کا ردعمل: خطرے کی گھنٹی

پیرس کی گرینڈ مسجد کے ریکٹر چیمس ایڈین حافظ نے ان واقعات کو ’’اسلام دشمنی کے عروج کا افسوسناک مظہر‘‘ قرار دیا اور کہا:

"ہم سب کو بیداری، اتحاد اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں، بلکہ فرانس کے ہر شہری کا مسئلہ ہے۔”

مسلم تنظیموں نے زور دیا کہ یہ واقعات صرف مذہبی نہیں بلکہ قومی سلامتی اور معاشرتی ہم آہنگی کا بھی مسئلہ ہیں۔


اسلامو فوبیا میں اضافہ: اعداد و شمار تشویش ناک

فرانسیسی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق:

  • سال 2025 کے پہلے 5 مہینوں میں 145 اسلاموفوبک واقعات درج ہوئے۔

  • یہ تعداد گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 75 فیصد زیادہ ہے۔

یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اسلام مخالف جذبات فرانس میں خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔


پس منظر: سور کا گوشت اور اسلامی عقائد

فرانس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 60 لاکھ ہے، جو کہ یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ اسلام میں خنزیر (سور) کو ناپاک اور حرام قرار دیا گیا ہے، اور اس کا گوشت کھانا ممنوع ہے۔ لہٰذا مساجد کے باہر خنزیر کے سر رکھنا نہ صرف مذہبی توہین ہے بلکہ یہ ایک واضح اشتعال انگیز کارروائی بھی ہے، جو کسی بھی مذہبی کمیونٹی کے لیے ناقابل برداشت ہے۔


نتیجہ: معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرہ

فرانس میں یہ واقعہ صرف چند افراد کے عمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ اس وسیع تر اسلاموفوبک بیانیے کی عکاسی کرتا ہے جو یورپ کے کئی حصوں میں جڑ پکڑ رہا ہے۔
یہ واقعات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ:

  • کیا مذہبی رواداری صرف نعروں تک محدود ہو گئی ہے؟

  • کیا ریاستیں محض مذمت سے آگے بڑھ کر کارروائی کریں گی؟

  • اور کیا معاشرتی ہم آہنگی صرف اکثریتی مفادات تک محدود رہ گئی ہے؟


فرانس کی مسلم کمیونٹی اب صرف انصاف کی منتظر نہیں بلکہ یہ سوال بھی اٹھا رہی ہے کہ

"ہم کب تک مذہبی منافرت کا شکار بنتے رہیں گے؟ اور دنیا کب ہماری تکلیف کو سنجیدگی سے لے گی؟”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button