
بجلی کے بلوں میں تین روپے 23 پیسے سرچارج اب مزید چھ سال تک وصول کیا جائے گا، گردشی قرضے کے حل کے نام پر عوام پر بوجھ برقرار
"حکومت نے بینکوں سے 1225 ارب روپے فنانسنگ کا معاہدہ کیا ہے۔ اس رقم سے گردشی قرضے کو جزوی طور پر ادا کیا جائے گا اور باقی رقم نئے قرضے کے طور پر استعمال کی جائے گی۔"
وائس آف جرمنی اردو نیوز خصوصی رپورٹ:
پاکستان میں بجلی کے صارفین پر پہلے سے ہی مہنگی بجلی، اضافی ٹیکسز اور بے قابو بلوں کی صورت میں بوجھ کم نہیں ہوا تھا کہ وفاقی حکومت نے ایک اور بڑا اعلان کر دیا۔ گردشی قرضے کو ری اسٹرکچر کرنے اور اسے "کم” کرنے کے نام پر 1225 ارب روپے کا نیا قرض لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بجلی کے بلوں میں شامل تین روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج، جو جولائی 2025 میں ختم ہونا تھا، اب آئندہ چھ برس تک جاری رہے گا۔
صارفین کو ریلیف کی امید، حقیقت میں بوجھ میں اضافہ
اس حکومتی اعلان کے بعد ابتدائی طور پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید عوام کو کچھ ریلیف ملے گا، اور وہ تین روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج کی ادائیگی سے بچ جائیں گے۔ مگر جلد ہی حقیقت سامنے آ گئی کہ یہ سرچارج اب صرف سود کی ادائیگی کے لیے نہیں، بلکہ اصل قرض اتارنے کے لیے بھی استعمال ہوگا۔ اور بدقسمتی سے اس میں کمی کی بجائے مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وزیر توانائی کا مؤقف: قرض کی ری اسٹرکچرنگ سے نظام مستحکم ہو گا
وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس لغاری نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا:
"حکومت نے بینکوں سے 1225 ارب روپے فنانسنگ کا معاہدہ کیا ہے۔ اس رقم سے گردشی قرضے کو جزوی طور پر ادا کیا جائے گا اور باقی رقم نئے قرضے کے طور پر استعمال کی جائے گی۔”
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ:
"صارفین جو پہلے صرف سود کی مد میں ڈیٹ سروس چارجز ادا کر رہے تھے، اب یہی رقم اصل قرض کو اتارنے میں بھی استعمال ہو گی۔ اس سے بجلی کے شعبے پر بوجھ کم ہو گا، مگر عوام پر کوئی نیا ٹیکس یا بوجھ نہیں ڈالا جا رہا۔”
ماہرین کا تجزیہ: عوامی بوجھ میں کمی نہیں، بلکہ اضافہ متوقع
توانائی اور معیشت کے ماہرین اس حکومتی اقدام کو عارضی ریلیف قرار دے رہے ہیں جو بجلی کی کمپنیوں کو تو فائدہ دے سکتا ہے، مگر عوام کے لیے یہ نہ تو کسی قیمت میں سستا بجلی مہیا کرے گا اور نہ ہی مہنگے بلوں میں کوئی کمی آئے گی۔
اقتصادی تجزیہ کار علی خضر کے مطابق:
"یہ تاثر غلط ہے کہ صارفین پر بوجھ کم ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو سرچارج جولائی 2025 میں ختم ہونا تھا، اب وہ مزید چھ سال تک لاگو رہے گا۔ اور اگر بجلی کی طلب میں کمی آئی یا پیداوار متاثر ہوئی، تو اس سرچارج میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔”
ان کے مطابق:
"جب تک بجلی چوری، لائن لاسز اور ناہلی پر قابو نہیں پایا جاتا، قرض لے کر گردشی قرضہ ختم نہیں ہو سکتا۔ حکومت صرف وقت خرید رہی ہے، جبکہ بوجھ ہمیشہ کی طرح صارفین کے کندھوں پر منتقل کر دیا گیا ہے۔”
خلیق کیانی: یہ ریلیف نہیں، عوام سے قرض وصولی کا نیا ماڈل ہے
انرجی امور پر رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی خلیق کیانی نے بھی حکومتی فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا:
"تین روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج اپنی مقررہ مدت (جولائی 2025) تک ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن اب یہ چھ برس تک جاری رہے گا، اور اس کا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔”
انہوں نے مزید کہا:
"بینکوں سے لیے گئے قرض سے وقتی طور پر بجلی کمپنیوں کے مالی معاملات بہتر ہو سکتے ہیں، لیکن قرض لے کر قرض ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے بجلی کی کمپنیوں کی کارکردگی، شفافیت اور وصولیوں کے نظام میں بہتری ضروری ہے۔”
گردشی قرضہ: بنیادی مسئلہ کیا ہے؟
پاکستان کے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ اس وقت ایک ایسی دیمک بن چکا ہے جو نظام کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ جب حکومت سبسڈی دیتی ہے لیکن مکمل ادائیگی نہیں کرتی، اور صارفین کی جانب سے بھی مکمل ادائیگیاں نہیں ہوتیں، تو بجلی کی ترسیلی کمپنیاں پیداواری اداروں کو ادائیگی نہیں کر پاتیں۔ اس کی وجہ سے پورا نظام خسارے کا شکار ہو جاتا ہے۔
فی الوقت گردشی قرضے کا حجم 1600 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
صارفین کیا کریں؟
صارفین اب اس حقیقت کا سامنا کریں کہ بجلی کے بلوں میں "عارضی” کے نام پر لگایا گیا تین روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج اب کم از کم چھ سال تک اُن کے بلوں کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔ مزید برآں، موجودہ معاشی حالات، روپے کی قدر میں کمی، درآمدی ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور آئی ایم ایف شرائط کی روشنی میں یہ چارج مزید بڑھ بھی سکتا ہے۔


