یورپتازہ ترین

پراگ سے بوڈاپیسٹ تک: ووٹرز میں مہاجرت اور یوکرینی جنگ پر گہرے تحفظات، دائیں بازو کی جماعتیں مضبوط

"ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک پر توجہ دینا چاہیے اور اپنے مسائل حل کرنا چاہییں۔ ہجرت آسان الفاظ میں قابو سے باہر ہو گئی ہے۔"

پراگ / بوڈاپیسٹ / براتسلاوا — (خصوصی رپورٹ)
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سیاسی فضاء ایک بار پھر بدلتی نظر آ رہی ہے، جہاں دائیں بازو کی قوم پرست جماعتیں مہاجرت، یوکرین جنگ، مہنگائی اور مقامی معیشت کے مسائل کو بنیاد بنا کر عوامی حمایت حاصل کر رہی ہیں۔ چیک ریپبلک، ہنگری اور سلوواکیہ جیسے وسطی یورپی ممالک میں حالیہ عوامی رجحانات اور بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ووٹرز اب یورپی قیادت کی خارجہ پالیسی سے مطمئن نہیں، اور اندرونی مسائل کو ترجیح دینے والی قیادت کے خواہاں ہیں۔


چیک ریپبلک: "ہمیں پہلے اپنے ملک کی فکر کرنی ہے”

چیک ریپبلک میں حالیہ یورپی انتخابات سے قبل کیے گئے عوامی انٹرویوز میں واضح رجحان نظر آیا کہ لوگ یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد، غیر ملکی مہاجرین کی آمد اور معاشی بدحالی سے نالاں ہیں۔

شمالی قصبے فریڈلانٹ میں ریٹائرڈ استاد ستانسلاوا کراؤسووا نے سابق وزیر اعظم اور ارب پتی سیاستدان آندرے بابش کی تقریر کے بعد کہا:

"ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک پر توجہ دینا چاہیے اور اپنے مسائل حل کرنا چاہییں۔ ہجرت آسان الفاظ میں قابو سے باہر ہو گئی ہے۔”

کراؤسووا اور ان کے اہل خانہ بابش کے حامی ہیں، جو خود کو "ٹرمپسٹ” قرار دیتے ہیں اور یوکرین کی جنگ پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ وہ یوکرین کے لیے فوجی امداد میں کٹوتی اور مہاجرت پر سخت کنٹرول کی حمایت کرتے ہیں۔

قریبی قصبے ہیجنیس میں ایک اور ریٹائرڈ ٹیچر ایلیسکا نے ٹومیو اوکامورا کی دائیں بازو کی جماعت فریڈم اینڈ ڈائریکٹ ڈیموکریسی (SPD) کو ووٹ دینے کا عندیہ دیا۔ ان کے مطابق:

"مہاجرت ایک بڑا خطرہ ہے۔ آنے والوں کی ثقافت ہماری ثقافت سے بہت مختلف ہے۔”


ہنگری: وکٹور اوربان کا دیہی علاقوں میں تسلط برقرار

ہنگری میں قوم پرست وزیر اعظم وکٹور اوربان کی 2010 سے جاری حکمرانی کو اگلے انتخابات میں ممکنہ چیلنج کا سامنا ہے، تاہم دیہی علاقوں میں اب بھی ان کی گرفت مضبوط ہے۔

کینڈریس قصبے کی کیشیئر ارما سوموڈی نے بتایا:

"مجھے یہ پسند ہے کہ وہ ہنگری کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ پناہ گزینوں کو ملک میں نہیں آنے دیتے۔ یہاں پہلے ہی نوکریوں کی کمی ہے۔”

ایک مقامی کاروباری روڈولف برائی نے اوربان کو یوکرین جنگ سے دور رہنے کا سہرا دیتے ہوئے کہا:

"خوراک مہنگی ہو گئی ہے، لیکن کم از کم ہمیں زبردستی جنگ میں نہیں جھونکا گیا۔”


سلوواکیہ: فیکو پر تنقید اور حمایت دونوں جاری

سلوواکیہ کے وزیر اعظم رابرٹ فیکو، جو حال ہی میں دوبارہ اقتدار میں آئے، یوکرین تنازعے میں روس کے قریب جانے پر تنقید کی زد میں ہیں۔ ان کے آبائی قصبے ٹوپولکینی میں لوگوں کی رائے منقسم ہے۔

63 سالہ ایوان ہرڈا کے مطابق:

"میں ہمیشہ فیکو کو ووٹ دیتا ہوں کیونکہ کوئی اور اس کام کے قابل نہیں ہے۔ وہ روس کے دورے پر جاتے ہیں تو شور مچتا ہے، لیکن مغرب کے دوروں پر نہیں؟ یہ دوہرا معیار ہے۔”

لیکن کئی بزرگ شہری، جیسے ایوا کونیکنا اور ماریا اُرسولووا، اب فیکو کی پالیسیوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔

"ہم بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہماری پنشن کرائے اور ادویات کے لیے بھی کافی نہیں۔”


دائیں بازو کا عروج اور یورپی یونین کے لیے چیلنج

وسطی یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کو ملنے والی حمایت کئی وجوہات کا نتیجہ ہے:

  • یوکرین جنگ پر بڑھتی ہوئی تشویش

  • مہاجرت کا خوف

  • معاشی بدحالی، مہنگائی اور پنشن کے مسائل

  • یورپی یونین کی پالیسیوں پر عوامی عدم اطمینان

ان جماعتوں کا مؤقف یہی ہے کہ "یورپ پہلے” یا "ہم پہلے”، جیسا کہ بابش اور اوربان کا بیانیہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یورپی ممالک کو عالمی تنازعات کی بجائے اپنی سرحدوں، نوکریوں اور ثقافت پر توجہ دینی چاہیے۔


تجزیہ: کیا یورپ ایک اور سیاسی تبدیلی کی دہلیز پر ہے؟

اگر چیک ریپبلک، ہنگری اور سلوواکیہ جیسے ممالک میں دائیں بازو کی جماعتیں مزید مضبوط ہو جاتی ہیں تو اس کا اثر صرف ان ممالک پر نہیں بلکہ پورے یورپی یونین کی پالیسی سازی پر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر:

  • یوکرین کے لیے امداد

  • مہاجرین کی پالیسی

  • یورپی انضمام اور نیٹو کے کردار

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو یورپی یونین کو اندرونی تقسیم اور پالیسی جمود کا سامنا ہو سکتا ہے۔


اختتامیہ

وسطی یورپ کے ان ممالک میں ہونے والے سیاسی اور عوامی رجحانات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ عام شہریوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اب وہ عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے مقامی مسائل کے حل اور ثقافتی تحفظ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آنے والے انتخابات اس بات کا تعین کریں گے کہ یورپ کون سی سمت اختیار کرتا ہے:
بین الاقوامی ہم آہنگی کی طرف یا داخلی خود مختاری اور قومی مفادات کی طرف؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button