پشاور میں واٹس ایپ کے ذریعے بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا نیٹ ورک بے نقاب، ایف آئی اے اور حساس اداروں کی مشترکہ تحقیقات جاری
یہ عناصر نہ صرف شہریوں کو دھمکی آمیز پیغامات اور کالز کے ذریعے ہراساں کر رہے ہیں بلکہ بعض کیسز میں رقم بٹورنے اور بلیک میلنگ کے سنگین الزامات بھی سامنے آئے ہیں
پشاور (خصوصی نمائندہ) — خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کاروباری طبقے، سرکاری اداروں کے افسران اور عام شہریوں کو واٹس ایپ کے ذریعے بلیک میل کرنے والے منظم گروہوں کے خلاف خفیہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ گروہ مبینہ طور پر افغان باشندوں پر مشتمل ہے، جنہوں نے جعلی پاکستانی شناختی کارڈز حاصل کر کے خود کو پاکستانی شہری ظاہر کیا ہوا ہے۔
یہ عناصر نہ صرف شہریوں کو دھمکی آمیز پیغامات اور کالز کے ذریعے ہراساں کر رہے ہیں بلکہ بعض کیسز میں رقم بٹورنے اور بلیک میلنگ کے سنگین الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ صورتحال کو قومی سلامتی اور داخلی امن و امان کے تناظر میں انتہائی حساس قرار دیا جا رہا ہے۔
کاروباری افراد اور افسران بنے نشانہ
ذرائع کے مطابق مذکورہ گروہ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سرگرم ہے۔ ان کا خاص ہدف متمول کاروباری حضرات، حساس سرکاری اداروں کے اہلکار اور بااثر افراد ہیں، جنہیں یہ گروہ واٹس ایپ کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔
یہ گروہ پہلے مختلف واٹس ایپ گروپس میں خود کو میڈیا نمائندہ، فلاحی کارکن یا سوشل ایکٹوسٹ ظاہر کر کے شامل ہوتا ہے، بعد ازاں متاثرہ شخص سے براہِ راست رابطہ کر کے اسے دھمکیاں یا بلیک میلنگ پر مبنی مطالبات کرتا ہے۔
خواتین کے نام سے جعلی پروفائلز، افغانی نمبرز کا استعمال
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بلیک میلنگ میں ملوث بعض عناصر خواتین کے نام سے جعلی پروفائلز بنا کر گروپس میں سرگرم ہوتے ہیں تاکہ شک سے بچا جا سکے۔ کئی مشتبہ نمبرز افغانستان، خلیجی ممالک اور یورپی ریاستوں سے رجسٹرڈ پائے گئے ہیں، جنہیں واٹس ایپ کے ذریعے پاکستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اور حساس ادارے ان نمبرز اور پروفائلز کے ذریعے ان افراد کے ڈیجیٹل روابط، بینک ٹرانزیکشنز اور لوکیشن ڈیٹا کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں۔
"جرگہ” کے بہانے پیسے بٹورنے کا انکشاف
ایک اور چونکا دینے والا انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ گروہ کے بعض کارندے خود کو مقامی قبائلی بزرگ ظاہر کر کے متاثرہ افراد کو "جرگے” کے بہانے بلا لیتے ہیں، جہاں دباؤ ڈال کر یا دھمکی دے کر رقم وصول کی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی کئی شکایات سامنے آئی ہیں جن میں متاثرین نے رقم دیے جانے یا ذاتی معلومات افشا ہونے کی تصدیق کی ہے۔
میڈیا کے نام پر جعلسازی
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بعض عناصر خود کو "صحافی” ظاہر کر کے معلومات حاصل کرتے ہیں یا خبروں کی اشاعت کا دباؤ ڈال کر کاروباری افراد کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
قومی سلامتی کو لاحق خطرہ، حساس ادارے متحرک
ذرائع کے مطابق ان گروہوں کی سرگرمیاں نہ صرف قانونی و اخلاقی اصولوں کے منافی ہیں بلکہ ان کا دائرہ کار اتنا منظم ہے کہ یہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ان میں شامل غیر ملکی عناصر اور جعلی شناخت رکھنے والے افراد کا پاکستانی سسٹم تک رسائی حاصل کرنا باعثِ تشویش ہے۔
ایف آئی اے، انٹیلی جنس بیورو اور دیگر حساس اداروں نے اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے مشترکہ آپریشنل ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں، جو کہ سوشل میڈیا ڈیٹا، موبائل فون کال ریکارڈز اور بینکنگ لین دین کی بنیاد پر گرفتاریوں کی تیاری کر رہی ہیں۔
متاثرین سے تعاون کی اپیل
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کو واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دھمکیاں، بلیک میلنگ یا فراڈ کا سامنا ہو رہا ہے، تو وہ فوری طور پر قریبی ایف آئی اے سائبر کرائم سیل یا مقامی پولیس سے رابطہ کریں۔ متاثرہ افراد کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ ان کی شناخت صیغۂ راز میں رکھی جائے گی اور ہر ممکن قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
جلد اہم گرفتاریاں متوقع
اعلیٰ سطحی حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہیں، اور جلد ہی اہم گرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔ حکام نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کو بھی جعلی شناخت کے ذریعے پاکستان کے امن اور شہریوں کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
نتیجہ: ڈیجیٹل سکیورٹی اور داخلی سلامتی کا چیلنج
پشاور اور دیگر شہروں میں اس قسم کی بلیک میلنگ اور ڈیجیٹل جرائم کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ڈیجیٹل سکیورٹی اور شناختی نظام کو مزید محفوظ بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحد پار عناصر کی مداخلت کو روکنے کے لیے بھی سخت حکمت عملی اور ٹیکنالوجی پر مبنی نگرانی کے نظام کو مؤثر بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔



